اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
جمعہ

30 دسمبر 2011

8:30:00 PM
287762

سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان

رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے ہونے والی ملاقاتیں یادگار ہیں

جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر نے کہا ہے کہ میں جامعہ پنجاب واقعہ پر جمعیت کی وضاحت سے مطمئن نہیں، البتہ میرے جذبات یہ ہیں کہ اس واقعہ کو نہیں ہونا چاہئے تھا، لیکن ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے اور غلطی کا ازالہ بھی ہونا چاہئے، ہمیں امریکہ کی غلامی کی بجائے ایران اور چین کی طرف دیکھنا چاہئے، امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے.

ابنا: سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان نے کہا ہے کہ ہمیں امریکہ کی غلامی کی بجائے ایران اور چین کی طرف دیکھنا چاہئے، امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے، شمسی ایئر بیس کو تو خالی کرا لیا گیا لیکن اس وقت بھی دالبدین، پسنی اور غازی ائیر فورس کمپائونڈ امریکہ کے قبضے میں ہیں، امریکہ عراق اور افغانستان میں شکست کھا چکا ہے، وہ ایران کا بال تک بھیگا نہیں کر سکا، اور انشاءاللہ پاکستان کے ہاتھوں بھی امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور سینٹ کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان 28 ستمبر 1954ء کو ہنجل امیر خاں تحصیل و ضلع بنوں میں پیدا ہوئے، آپ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے، 1973ء سے 1975ء تک اسلامی جمعیت طلبہ بنوں کی ذمہ داری ادا کی، 1975ء سے 1977ء تک گومل یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے اور پھر 1977ء سے 1980 تک ناظم اسلامی جمعیت طلبہ ڈیرہ اسماعیل خان کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد آپ جماعت اسلامی پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور پھر 1981ء سے 1982ء تک قیم جماعت اسلامی بنوں اور 1982ء سے 1984ء تک قیم جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، 1982ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پروفیسر ابراہیم صاحب کی گومل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار تقرری ہوئی اور یہاں پر 1985ء تک خدمات انجام دیتے رہے، جون 1985ء میں قیم جماعت اسلامی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) مقرر ہوئے اور 1994ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے، اپریل 1994ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے اور اکتوبر 2003ء کو سینٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے، اس کے بعد فروری 2006ء میں دوبارہ رکن سینٹ کے لیے آپ کا انتخاب عمل میں آیا، پروفیسر ابراہیم کا شمار صوبہ کی اہم مذہبی و سیاسی شخصیات میں ہوتا، اسلام ٹائمز نے ابراہیم صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:جماعت اسلامی نے ملک میں اسلامی انقلاب کیلئے حالیہ تحریک شروع کی ہے، اس کے تناظر میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قوم حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب کی متمنی ہے۔؟ سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستانی قوم کو یہ موقع دیا جاتا اور کھلا میدان مل جاتا تو پاکستان میں اسلامی انقلاب بہت پہلے آ چکا ہوتا، فروری 1949ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے موقع پر جماعت اسلامی کا ایک بھی رکن پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھا، لیکن عوامی دبائو کے تحت جماعت اسلامی نے اس وقت کی اسمبلی کو مجبور کیا کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ حاکم اعلٰی اللہ تعالٰی کی ذات ہے، اور جمہور کے منتخب نمائندے امانت کے طور پر اس اختیار کو استعمال کرینگے کہ وہ اللہ تعالٰی کے سامنے بھی جوابدہ ہونگے اور جمہور کے سامنے بھی، اس کے بعد دستور آتے رہے اور پھر آخری دستور جو 1973ء میں بنا اور آج تک نافذالعمل ہے اس میں اسلامی دفعات تسلیم کر لی گئیں جو کہ ہماری کامیابی ہے، لیکن ہم نے ابھی تک پارلیمانی کامیابی حاصل نہیں کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایجنسیاں لوگوں کو اٹھاتی اور گراتی ہیں، اور عام ووٹر کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ تبدیلی اس کے ووٹ سے نہیں بلکہ فوج یا امریکہ کے ذریعے آتی ہے، یا پھر فوج اور امریکہ ملکر تبدیلی لاتے ہیں۔

اب حالات بدل رہے ہیں، اس لئے ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ انشاءاللہ عوام کا فیصلہ درست ہو گا، ہم عوام کے سامنے آئیں گے اور اس لئے جماعت اسلامی نے سب سے پہلے اپنا منشور پیش کر دیا ہے، امانت و دیانت اور عدل و انصاف کے ذریعے ہی ملک و قوم کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اس وقت ہمارے مسائل کی بنیاد کرپشن ہے اور کرپشن کا مسئلہ امانت دار اور دیانتدار قیادت کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، ملک میں امن و امان کا جو گھمبیر مسئلہ ہے وہ عدل و انصاف کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، یہی ہمارا منشور ہے، مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست جس کی بنیاد نبی کریم ص نے ڈالی تھی وہ ہمارے لئے رول ماڈل ہے، نبی ص نے اس وقت میثاق مدینہ کے نام سے جو دستور پیش کیا تھا آج بھی دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ وہ پہلا تحریری دستور ہے، اور ہم اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ اب عوام ہمارا ساتھ دینگے، اب کسی طالع آزما کو موقع نہیں ملے گا اور سیاست میں ایجنسیوں کا کھیل بھی ختم ہونے والا ہے۔

اسلام ٹائمز:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو اسلامی انقلاب برپا کرنے میں قوم کی قیادت کر سکیں۔؟ سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:انقلاب اصولوں کی بنیاد پر آتے ہیں، حسن البنٰی کو 1948ء میں شہید کر دیا گیا تھا لیکن مصر میں تو آج انقلاب آیا ہے، یہ اسلام کے اصول ہیں جن کی بنیاد پر انقلاب آتے ہیں، تیونس میں راشد الغنوشی موجود ہیں لیکن وہاں بھی اسلام کے اصولوں پر لوگوں نے تبدیلی کی بنیاد رکھی، لہٰذا پاکستان میں قوم کو شخصیات کے پیچھے لگانے کی بجائے ہم اسلام کے اصول سکھانا چاہتے ہیں، شخصیات تو آنی جانی ہیں، آج ایک شخصیت ہے کل دوسری ہو گی، جس طرح کل قاضی صاحب تھے آج منور حسن صاحب ہیں اور کل کوئی اور ہو گا، اگرچہ شخصیات کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن لیکن اصل بات اصولوں کی ہے، اور اصولوں کی بنیاد پر کوئی انقلاب آئے تو وہ دیرپا ہوتا ہے، اگر شخصیت کی بنیاد پر تبدیلی آتی ہے تو اس شخصیت کے جانے کے بعد وہ تبدیلی بھی ختم ہو جاتی ہے، ہم اسلام اور قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:خیبر پختونخوا کافی عرصہ سے دہشتگردی کی لہر کی لپیٹ میں ہے، آپ کے خیال میں اس دہشتگردی کے پیچھے دشمن ممالک کی ایجنسیاں ہیں یا پھر اس میں ہمارے ہی لوگ ملوث ہیں۔؟ سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:بیرونی ممالک کی ایجنسیاں ہی نہیں بلکہ امریکہ خود اس خطے میں موجود ہے، اور جو کچھ ہو رہا امریکہ اس میں ملوث ہے، امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے، امریکہ یہاں سے نکل جائے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ہمارے حکمران امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، پرویز مشرف امریکیوں کا گھوڑا تھا، شمسی ایئر بیس کو تو خالی کرا لیا گیا لیکن اس وقت بھی دالبدین، پسنی اور غازی ائیر فورس کمپائونڈ امریکہ کے قبضے میں ہیں، امریکہ ہمارے ملک کا امن و امان تباہ کرنے کا باعث بنا ہے، مشرف اپنے جلسوں میں اعلان کرتا رہا کہ اگر آپ کو میری پالیسیاں قبول ہیں تو ق لیگ کو ووٹ دیں لیکن عوام نے ق لیگ کو مسترد کیا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سابقہ امریکی پالیسیوں کو ختم کرتی، لیکن آصف زرداری نے مزید شدت کیساتھ ان پالیسیوں کو جاری رکھا، اکتوبر 2008ء میں اس وقت کے ڈ ی جی ملٹری آپریشنز جنرل شجاع پاشا نے ایوان کو جو بریفنگ دی تھی اسکے معنی یہ تھے کہ وہ پرویز مشرف کی پالیسی پر پارلیمنٹ سے مہر توثیق ثبت کرنا چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

زرداری اور گیلانی کی حکومت نے پارلیمنٹ کا ساتھ دینے کی بجائے پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بات یہاں تک پہنچ گئی کہ 2 مئی کو ایبٹ آباد کا واقعہ ہو گیا، 13 مئی کو پھر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا، جس میں پارلیمنٹ نے 2008ء کی قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا لیکن آج تک اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں ہوا، آج جب میمو گیٹ کی وجہ سے زرداری پر کچھ حرف آنے لگا ہے تو وہ فوج اور سپریم کورٹ کیخلاف بولنے لگے ہیں، اب یہ ثابت ہو گا کہ منصور اعجاز کے اس میمو میں زرداری کا کتنا ہاتھ ہے، انگلیاں زرداری کی طرف ہی اٹھ رہی ہیں کہ انہوں نے امریکی فوج اور امریکی حکومت کو کہا ہے کہ آپ میرا ساتھ دیں، میں فوج کو آپ کا تابع بنائوں گا، پرویز مشرف کی کمانڈ میں فوج امریکہ ہی کے تابع رہی ہے، ایبٹ آباد واقعہ اور سلالہ حملے کے بعد فوج امریکہ کے مخالف ہونے لگی ہے، ہم تو روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ آپ امریکہ کا ساتھ دے کر غلطی کر رہے ہیں، اور مشرف کی کمانڈ میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہماری فوج پر لازم ہے اور زرداری جو ہمارے دشمن امریکہ سے فوج کیخلاف مدد مانگ رہے ہیں یہ غداری ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہر ایک کی پوزیشن واضح ہو، فوج کہتی ہے کہ ہمارا اندرونی احتسابی نظام موجود ہے، لیکن مشرف کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، فاٹا اور پاٹا میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز پر دستخط کر کے زرداری نے فوج کو وہ اختیارات دیئے ہیں جو کسی کے پاس نہیں، جس کے تحت کسی کو بھی کسی بھی وقت قتل کیا جا سکتا ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ اختیار کس بنیاد پر دیا گیا ہے، ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ گئے لیکن ہمیں عدالت سے گلہ ہے کہ اس نے آج تک اس کیس کو ٹیک اپ نہیں کیا، ہم نے آئینی تقاضوں کے باعث فاٹا نہیں پاٹا کیلئے عدالت سے رجوع کیا، لیکن رجسٹرار نے یہ اعتراض لگا دیا کہ اس پٹیشن میں ملاکنڈ کا کوئی فرد موجود نہیں ہے، حالانکہ میں نے درخواست دائر کی اور میں اسی صوبے کا باشندہ ہوں، مجھے اس حوالے سے سپریم کورٹ سے شکوہ ہے کہ اس نے میری درخواست سماعت کیلئے منظور نہیں کی، اب اس درخواست میں ہم نے ملاکنڈ کے افراد کے نام بھی ڈال دیئے ہیں لیکن ابھی تک سماعت کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔

ہم چاہتے ہیں یہ سارے مسائل حل کئے جائیں، امریکہ یہاں موجود ہے اور ہم اس کیخلاف صف آراء ہونے کیلئے تیار ہیں، لیکن ہمارے جرنیل کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہم امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہو تو امریکہ ہم سے شکست کھائے گا، ہم سات سمندر پار کر کے امریکہ پر حملہ آور نہیں ہو رہے بلکہ امریکہ ہم پر حملہ آور ہو چکا ہے، امریکہ نے ہم پر حملے کئے لیکن ہمارے جرنیلوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا، امریکہ عراق اور افغانستان میں شکست کھا چکا ہے، وہ ایران کا بال تک بھیگا نہیں کر سکا، اور انشاءاللہ پاکستان کے ہاتھوں بھی امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا، زرداری اور گیلانی کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کا کھاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم اللہ کا دیا ہوا کھاتے ہیں، امریکہ میں ہمارے 500 ارب ڈالر پڑے ہیں  جو ہمارے حکمران لیکر گئے تھے اور وہی ہمیں امداد کی شکل میں واپس ملتا ہے، امریکہ ہمیں کچھ نہیں دے رہا، کیری لوگر بل کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دینے کی بات کی گئی، دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہمیں 3 ہزار ملین ڈالر ملنے چاہئے تھے لیکن اب تک 189 ملین ڈالر ملے ہیں۔

ہماری افواج کو امریکہ سے کچھ نہیں مل رہا، اللہ کے فضل سے ہم اپنے طور پر الخالد ٹینک تیار کر رہے ہیں، چین کے تعاون سے ایف16 سے بہتر جے ایف 17تھنڈر تیار ہو رہے ہیں، امریکہ ہمیں طیارے دے رہا ہے لیکن چین تو ہمارے ساتھ ٹیکنالوجی بھی شیئر کر رہا ہے، مشرف دور میں بھی ہم سے پوچھا جاتا تھا کہ اگر ہم