اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
اتوار

11 دسمبر 2011

8:30:00 PM
283587

پروفیسر دوست محمد کا مرثیہ اردو کے فراق میں؛

آنے والی نسلیں اقبال کو انگلش میں پڑھا کریں گی، انٹرویو

پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد کہتے ہیں کہ انگریزی نظام تعلیم نے تو سارا نظام ہی ختم کر دیا ہے، نئی نسل تو اقبال سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ وہ اردو زبان ہی نہیں جانتے، اور جب اردو زبان ہی نہیں جانتے ہیں تو اقبال کو کیا پڑھیں گے؟ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان کے ساتھ ساتھ لازمی زبان قرار دیا جائے تاکہ ہمارے بچے اقبال کو پڑھ سکیں۔

ابنا: پشاور یونیورسٹی کے شیخ زید انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد ملک کے دانشور حلقے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ملک کی ایک اہم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے مدیر ہونے کے علاوہ متعدد، اداری و غیر اداری خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ شیخ زید انسٹی ٹیوٹ کے تدریسی بورڈ کے ممبر ہونے کے علاوہ، ICMS کے گورننگ بورڈ کے بھی ممبر ہیں، علاوہ ازیں آپ حکومت خیبر پختونخوا کی ثقافتی کمیٹی میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شیخ زید انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی مجلات ’’السراج‘‘ اور ’’ECTA‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ آپ نے کئی ایک ملکی و بین الاقوامی سیمینارز میں شرکت کی اور متنوع موضوعات پر تحقیقی مقالات پیش کیے، علاوہ ازیں آپ نے کئی ایک قومی اور بین الاقوامی کانفرسوں کا انعقاد بھی کیا۔ ڈاکٹر دوست محمد نے 1988ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور اس کے بعد 1989ء میں ایم اے اردو کیا۔ آپ نے پشاور یونیورسٹی ہی سے 1995ء میں ایم فل اسلامیات کرنے کے بعد سن 2000ء میں پی ایچ ڈی کی اعلی ڈگری حاصل کی۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے ایک انٹرویو کیا ہے جس میں انہوں نے بہت ساری اَن کہی باتیں کیں ہیں جو قارین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:ڈاکٹر صاحب وطن عزیز کئی مسائل سے دوچار ہے، ان حالات میں پاک وطن کو مسائل سے کیسے نکالا جاسکتا ہے اور اس کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہیں۔؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد: پاکستان کا سب سے اہم ترین مسئلہ اس وقت اس کا تشخص ہے، اس کا تشخص آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی نئی ریاست وجود میں آتی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مشن ہوتا ہے یعنی وہ کسی نظریہ اور مقصد کے تحت وجود میں آتی ہے، ہر قوم کی ایک تاریخ ہوتی ہے، اسی طرح پاکستان بھی وہ دنیا کی اہم اور پہلی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے۔ اس لیے مولانا شبیر عثمانی نے جب تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت دو قومی نظریے پر علمائے ہند تقسیم تھے، مولانا شبیر عثمانی نے خطبات اسمائیہ میں اس کی توجیح پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشیت ایزدی یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ المنورہ ہجرت فرمائے گئے اور وہاں ایک خوبصورت اسلامی ریاست کا قیام کیا ،اس کے بعد دنیا کی یہ دوسری اسلامی ریاست پاکستان ہے جو وجود میں آئی جس کا مقصد اور شعار یہی تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالا الہ اللہ، یعنی اس ریاست کی نسبت ہی اسلام اور اللہ کے رسول ص سے تھی۔ آج قوم کو کنفیوز کردیا گیا ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد اسے ایک سیکولر ریاست بنانا تھا کوئی کہتا ہے کہ نہیں قائد اعظم محمد علی جناح ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے، یعنی قوم ایک ہیجان کی کفیت سے گزر رہی ہے، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کے تشخص کو ختم کیا جارہا ہے۔ آنیوالی نئی نوجوان نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس کے تشخص کے احیاء کی خاطر کام کیا جائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے جہاں ہر انسان کو بلاامتیاز روٹی، کپڑا، مکان، جان و مال کی حفاظت، تعلیم، صحت اور روز معاش کے وسائل دستیاب ہوں، جہاں لوگ عبادت اپنی مرضی اور آزادی سے انجام دے سکیں، ایک ایسی ریاست جہاں پر طبقاتی تقسیم نہ ہو اور مساوت اور عدل کا نظام قائم ہو۔ مگر آ ج ہم دیکھتے ہیں ان مقاصد سے کہیں دور نکل چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شدت پسندی، انتہاء پسندی اور فرقہ واریت پاکستان کا ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہے جس کے باعث ہمارے ملک سے سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں،آپ کی نگاہ میں اس کا راہ حل کیا ہے۔؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد:ان تمام مسائل کا حل قائد اعظم کے فرمودات ہیں اُن کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ بنانا ہوگا، ایسی ریاست جہاں سب کے حقوق کا تحفظ ہو، جہاں لوگ امن وامان سے زندگی گزار سکیں۔ اگر اسلام کو صحیح معنوں اور صحیح تناظر میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک انہیں تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اس حدیث کو اپنے پلے سے باندھ لیں اور آگے بڑھیں تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، ریاست کو بالاتر بنانے کی ضرورت ہے، حکومتی رٹ نظر آنی چاہیے، کوئی قانون شکنی کرتا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے، مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب حکومتی رٹ ختم ہوجاتی ہے، جب رشوت ستانی عروج پر پہنچ جاتی ہے جب قانون محض غریبوں کیلئے مخصوص ہوجاتا ہے اور طاقتور طبقہ اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے عدالتی نظام کو درست کرنا ہوگا، جو بھی ریاستی قانون کی خلاف ورزی کرے اسے سزا ملے، جج صاحبان میرٹ پر فیصلے دیں، انہیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے، اگر یہ تمام چیزیں ہوجائیں تو تمام چیزیں درست ہوسکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس ساری صورتحال میں نوجوان نسل کیا کردار ادا کرسکتی ہے، کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دیگر ممالک میں بیداری کی لہر میں نوجوان کافی آگے ہیں اور ایک اہم رول ادا کررہے ہیں۔؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد: تعلیم، یعنی آپ سوچئے کہ دین اسلام کی ابتداء ہی یہاں سے ہوئی کہ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘۔ یہ جو لفظ ہے ’’پڑھ‘‘ یہ پہلی آیت کا پہلا لفظ ہے جس سے اسلام کی ابتداء ہوئی ہے۔ شرح خواندگی اور شرح تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے، شرح خواندگی میں تو وہ بھی آتا ہے جو اپنا نام لکھ سکتا ہے لیکن شرح تعلیم وہ ہے جو آیت میں آیا ہے ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ خود تخلیق کر سکے۔ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلباء، اساتذہ اور نوجوان مل کر تخلیق کریں۔ آج آپ نے دیکھا کہ ہماری جامعات دھڑا دھڑ ڈگریاں دے رہی ہیں، لوگ ڈاکٹرز ، انجینئرز بن رہے ہیں لیکن انسان پیدا نہیں ہورہے، ڈاکٹر گردے بیچ کر کھا جاتا ہے، انجینئرز قوم کا سرمایا ڈبو کے رکھ دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہورہا ہے، کیوں ہم انسان پیدا نہیں کررہے صرف پیسے پیدا کرنے والے مشین پیدا کررہے ہیں اور وہ بھی صحیح نہیں کررہے کیوں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اصل ہدف کی جانب گامزن نہیں ہوئے، آج اسمبلیوں میں لوگ جعلی ڈگریاں لیکر پہنچ گئے ہیں، جب اُن سے سوال ہوتا ہے تو کہتے نظر آتے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی چاہے وہ اصلی ہو یا جعلی۔ کیا یہ ہمارے منہ پر طمانچہ نہیں ہے۔؟؟ جب تک تعلمی اداروں میں صحیح اور بامعنی کام نہی ہوتا اس وقت تک ہم اس پیچیدہ صورتحال سے دوچار رہیں گے۔ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے کہ یہاں سے دیانتدار اور ایماندار افراد نکلیں، صدر سے لیکر چپڑاسی تک حلال رزق کمانے والے ہوں اور لوگ ان کی ساکھ پر سوال نہ اٹھا سکیں۔

اسلام ٹائمز:آپ نے اہم ترین چیزوں کی جانب اشارہ کیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نصاب پر بھی کام کرنا چاہیے، ایک ایسا نصاب جو جامعات میں انسان پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو، دوسرا یہ کہ قومی یکجہتی کیسے پیدا کی جائے۔؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد: یہ ایجنڈا تو او آئی سی کا ایجنڈا تھا، اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے، فی الحال عالم اسلام اگر اتحاد کی طرف نہ بھی جاسکے تو کوئی بات نہیں اگر صرف اتنا کر لیں کہ نصاب میں ہم اسلام کی وہ تعبیر و تشریح کریں جو سب کیلئے قابل قبول ہو، ایک ایسا نصاب جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہوں، جہاں سب کے احساسات کی ترجمانی کی جائے، جہاں نوجوان نسل پھلے پھولیں، جہاں ایسے افراد پیدا ہوں جو عالمی سطح پر قوموں کی نمائندگی کر سکیں، اُن کی اصلاح اور صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں وہ نصاب اہم کردار ادا کرے۔ ایسا نصاب جو اقبال کے شاہین پیدا کرے، ایسی تعلیم فروغ پائے جو انسان کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دے، ایسا نصاب جو قائد اور اقبال کے ویژن کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو، نصاب ایک ہو تاکہ ہماری فکر میں یکجہتی آجائے اور ہم اُمت بن جائیں۔ جہاں تک اتحاد کی بات ہے تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ’’ کچھ بڑی بات نہیں تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ‘‘ یہ پوری ایک مسدس ہے۔ نتیجتاً یہ کہ ہم سب ایک ہو جائیں۔ ہمیں مشترکات پر کام کرنا چاہیے، جب اللہ اپنے رسول ص کو یہودیوں سے ایک اللہ کے ایمان لانے پر اتحاد کی بات کرتا ہے تو ہمارے درمیان اتحاد کی کئی چیزیں ہیں جن پر ہم اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر ان چیزیں پر اکٹھے ہو جائیں تو امت مسلمہ ایک قوت بن کر ابھرے گی اور وہی قوت ہو گی کہ جس کے لیے ساری دنیا منتظر ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ ان ممالک کے پاس بے شک ترقی ہے، انہوں نے ہواؤں میں اڑنا سیکھ لیا ہے، انہوں نے سمندر میں مچھلی کی طرح تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن زمین پر انسان کی طرح چلنا انہیں اب بھی نہیں آیا ہے۔ علامہ اقبالؒ اس لیے فرمایا تھا کہ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہ ہو گا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریخ سحر کر نہ سکا اجالے کا پیغام ہمارے پاس ہے، اسم محمد ص سے اجالا کر دے، یہ ہمارا مشن ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے کُل بجٹ میں سے تعلیم کے لیے فقط دو فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تعلیم جیسے شعبہ کو نظر انداز کرنا یا اس پر توجہ نہ دینا نقصان دہ ہے۔؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد: جی بلکل آپ درست فرما رہے ہیں، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس انداز میں تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ہے ایسے کسی اور شعبہ کو نہیں کیا گیا۔ اس کیلئے ہمیں تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس میں والدین، اساتذہ، سول سوسائٹی سمیت دیگر طبقات شامل ہوں جو حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ تعلیم اہم چیز ہے اس کیلئے ہمیں دفاع کے برابر خرچ کرنا چاہیے، اگر تعلیم ہوگی تو معاشرے میں تبدیلی آئے گی، معاشی ترقی ہوگی، سائنسی لحاظ سے ہم یورپ کا مقابلہ کرسکیں گے اگر ایسے نہیں ہوگا تو ہم ہر میدان میں پیچھے رہیں گے، اب یہ مسئلہ ہماری بقاء کا مسئلہ ہے بلکہ ہماری موت و حیات کا مسئلہ ہے لہٰذا اس کے لیے ہم نے دفاع جتنے بجٹ کو ضرور متعین کرانا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں کم از کم 20 فی صد بجٹ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، دنیا کا سب کم بجٹ دس فیصد ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے ہیں، جاپان میں جب جنگ کے دوران بم گرایا گیا تب بھی انہوں نے اپنے آج کے مقام کو حاصل کرنے کے لیے اپنے قومی بجٹ کا 25 فیصد تعلیم کے لیے مختص کر دیا لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں آج بھی 2.4 فیصد ہے اور اس میں سے کبھی کبھی کٹوتی کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں طلباء، اساتذہ اور سوسائٹی سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ مل کر اس کے لیے جدوجہد کریں۔ جلوس کی حد تک نہیں بلکہ قانونی اور آئینی جدوجہد کریں۔ وہ اپنے منتخب نمائندوں پر دباؤ ڈالیں کہ آپ قومی اسمبلی میں بامعنی تعلیم اور ایسی تعلیم جو تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو کے لیے آواز اٹھائیں، جب یہ کام ہو جائے گا تو ایک وزیر کا بیٹا اور ایک زمیندار کا بیٹا ایک ہی سکول میں پڑھیں گے۔ پھ