اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

19 نومبر 2011

8:30:00 PM
279358

علامہ ناصر جعفری: امریکہ کی دوستی، دوستی نہیں، غلامی ہوا کرتی ہے

مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مظلوموں کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کریں گے اور یہ تعاون مشروط ہوگا، ہمارے لئے پارٹی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ افراد اہم ہیں، ان شرائط پر امیدواروں سے تعاون کریں گے کہ وہ پارلیمینٹ میں جاکر استعمار دشمنی، وطن دوستی، ملت اسلامیہ کی وحدت اور اہم ایشوز پر موثر آواز اُٹھائیں گے۔

ابنا: علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، آپ نے بہت کم عرصہ میں قیام کر کے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور کافی عرصہ سے ملت میں پائی جانیوالی عدم فعالیت اور سکوت کو توڑا، ملت تشیع کو میدان عمل اور سڑکوں پر لے آئے۔ شیعان پاکستان کی مجلس وحدت مسلمین اور علامہ ناصر صاحب سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گزشتہ روز اُن سے آئندہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کی حکمت عملی اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مجلس وحدت مسلمین کی سیاست کے حوالے کیا حکمت عملی ہے، آیا انتخابی سیاست کی جائے گی یا کوئی اور لائحہ عمل ہوگا؟علامہ ناصر عباس جعفری:یہ بات طے ہے کہ دین اور سیاست جدا نہیں ہیں۔ ہمارا اس پر کامل ایمان ہے، مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے جو گائیڈ لائن دی ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں گے، انتخابی سیاست کی بجائے شیعہ پارلیمنٹیرین کیساتھ تعاون کیا جائے گا بھلے اس کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہو، ہماری خواہش ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں دس منتخب نمائندے شیعہ ہیں تو اگلی بار یہ تعداد پندرہ سے بیس ہو جائے۔ دوسرا معتدل اہل سنت حضرات کو بھی سپورٹ کیا جائے گا، وہ افراد جو معتدل ہیں اور استعمار دشمن ہیں، جو خطے سے امریکی مداخلت کے مخالف اور انخلا چاہتے ہیں، ہم مظلوموں کے حامی پارلیمنٹرینز کو مضبوط کریں گے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ وطن عزیز 80ء کی دہائی کے بعد سے فرقہ واریت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ قوتیں جو انتہا پسند ہیں، انحرافی ہیں، ان کے مدمقابل لوگوں کو سپورٹ کیا جائے گا تاکہ یہ انحرافی لوگ اہم اداروں تک نہ پہنچ سکیں، تاہم یہ تعاون مشروط ہوگا ہمارے لیے پارٹی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ افراد اہم ہیں، جہاں اچھے افراد ہوں گے، ان کو سپورٹ کریں گے۔ ہم اُن افراد سے ان شرائط پر تعاون کریں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں وطن دوستی، ملت کی وحدت کیلئے طاقتور آواز اٹھائیں اور اہم ایشوز پر اسٹینڈ لیں۔ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کے عوام امریکہ مخالف ہیں، جو امریکہ کی دوستی اور غلامی دونوں کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ غلامی ہوا کرتی ہے۔ آج سیاست دان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں غلامی نہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ کی صرف غلامی ہوا کرتی ہے دوستی نہیں۔ لہٰذا جو لوگ تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کررہے ہیں انہیں عوام کے جذبات اور احساسات کو سمجھنا چاہیے۔ عوام چاہتے ہیں کہ وطن عزیز سے امریکہ کا اثرو نفوذ ختم ہونا چاہیے۔ عوام کی خواہش ہے کہ ہر وہ اقدام جو امریکہ کو اس ریجن میں لے آئے اُسے روکا جائے اور اس کے خلاف اسٹینڈ لیا جائے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی، بھوک، افلاس، تنگ دستی، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، بے روزگاری اور کرپشن میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس جانب کوئی متوجہ نہیں ہو رہا ہے، مظلوموں کو اُن کا حق دلانے والا کوئی نظر نہیں آتا، کھوکھلے نعروں سے عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ ہم ان ایشوز پر الیکشن میں تعاون کریں گے۔اس وقت آپ دیکھیں کہ کیا کچھ نہیں ہورہا، آئے روز ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ قیمتی جانوں کا ضائع ہو رہا ہے، حکمران خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو محض دکھاوے کیلئے، ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی پر حملے ہیں اس پر پوری قوم کو احتجاج کرنا چاہیے اور اُن افراد کا گریبان پکڑنا چاہیے جو ملک کی بقاء اور عوام کی خواہشات کو پیروں تلے روندتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:موجودہ پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں کیخلاف دو قراردادیں پاس کیں لیکن اس کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں، آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجیں گے جو ان اقدامات کیخلاف آواز بلند کریں گے کیا وہ اِن چیزوں کو روک پائیں گے؟۔ علامہ ناصر عباس جعفری: جی دیکھیں رائے عامہ کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پارلیمنٹیرین اور حکمران اس معاملے میں منافقانہ رول ادا کر رہے ہیں اور سیکورٹی کے ادارے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ لوگ اندر سے امریکہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، خود وکی لیکس نے اس بار ے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ سے ساز باز کی ہوئی ہے کہ آپ حملے جاری رکھو ہم اس کی مذمت کرتے رہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایوان میں بیٹھے لوگ مخلص ہوں اور وہ حقیقی آواز بلند کریں تو پوری قوم اُن کی پشت پر ہو گی اور پھر امریکہ کیلئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ آپ کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرے ۔

اسلام ٹائمز:مسلم لیگ نواز نے سینیٹ کے الیکشن سے قبل اجتماعی استعفوں کا اعلان کر رکھا ہے آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟۔علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے اور جو ظاہری طور پر ہوتا ہے وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔ ایسی قوتیں آسانی سے تبدیلی نہیں آنے دیتیں۔ وہ اپنی مرضی کی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی حوالے سے جو تبدیلیاں آتی ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ بھی ایک خاص رول ادا کرتی ہے اور اس حوالے سے ہمارا ماضی گواہ ہے کیونکہ انہوں نے ملک کے انتظام اور وسائل پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے، نواز شریف کا ماضی گواہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ تھا لیکن جب انہوں نے اپنی مرضی سے آرمی چیف کو تبدیل کرنا چاہا تو انہیں بھائی کے ہمراہ ملک بدر ہونا پڑگیا، آٹھ سال وہ ملک سے باہر رہے۔ ایک دفعہ ملک میں آنے کی کوشش کی لیکن ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا، اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے، یہ پارٹیاں بناتے بھی ہیں اور توڑتے بھی ہیں، آپ دیکھیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا اور بھٹو کے خلاف جو تحریک، نظام مصطفی کے نام پر اُٹھی اس کے پیچھے بھی یہی لوگ تھے۔ یہ طاقتیں مختلف کھیل جاری رکھتی ہیں، ہر پارٹی میں ان کے بندے مضبوط پوزیشن پر ہوتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پارٹی کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں کوئی مرکزی لیڈر شپ وجود میں آئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے اہداف و مقاصد ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے میں آپ نے دیکھا کہ کتنی مشکلات پیش آئیں۔ اب سیاستدان بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ان سب کا ہدف اقتدار ہوتا ہے۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ پرائم منسٹر بن جائے۔ اس وقت پی پی پی کی حکومت کو پونےچار سال ہو چکے ہیں۔ نواز شریف یہ سمجھتا ہے کہ اگر سینیٹ کے الیکشن ہو جاتے ہیں تو پھر یہ لوگ اگلے الیکشن میں بھی آجائیں گے۔ میں نے جنرل حمید گل سے سنا ہے کہ امریکی نواز شریف سے ملے ہیں اور اُسے کہا گیا ہے کہ وہ زرداری کو ٹف ٹائم دے، کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب آگیا ہے اور امریکہ کے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ ادھر نواز شریف کو کاونٹر کرنے کے لیے عمران خان کو آگے لایا گیا ہے۔ عمران خان نے خود کہا ہے کہ آرمی کے 99 فیصد لوگ میرے حامی ہیں، اس کیا مطلب ہے؟ لوگ سمجھ گئے ہیں کون کیا چاہتا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ آگے جا کر نواز شریف کا دائرہ تنگ کر دیا جائے گا کیونکہ اس کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق اچھا نہیں رہا۔

اسلام ٹائمز:مجلس وحدت نے تشیعُ کی وحدت کیلئے ابتک کیا اقدامات کیے ہیں؟ شیعہ تنظیموں اور شخصیات کو قریب لانے کیلئے ابتک کیا اقدام کیے گئے ہیں اور اس میں کتنی کامیابی ملی ہے؟۔علامہ ناصر عباس جعفری:مجلس وحدت مسلمین نے کوشش کی ہے کہ خطباء، ذاکرین، بانی مجالس اور عزاداروں کے ساتھ رابطے کیے جائیں جن میں الحمد اللہ خاصی کامیابی ملی ہے۔ لوگوں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ کافی سپورٹ بھی کر رہے ہیں، جہاں تک شیعہ خواص اور جماعتوں کی بات ہے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ روا داری کو قائم اور برقرار رکھا جائے، کوئٹہ میں مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے ایک پروگرام منعقد ہوا، اس میں تمام جماعتوں سے ایک ایک نمائندہ شریک ہوا اور مل کر متفقہ طور پر فیصلے کیے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے تمام شیعہ طبقات کیساتھ مل کر چلنے اور قومی نوعیت کے معاملات پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے عملی کوشش کی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز:شام کے حالات بہت زیادہ خراب کیے جا رہے ہیں اور اب عرب لیگ نے اس کی رکنیت معطل کر دی ہے، جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ کہتے ہیں کہ بشارالاسد مستعفی ہو جائیں، آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟۔علامہ ناصر عباس:شام میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا کہ پیش کیا جارہا ہے۔ چیزیں واضح اور روشن ہیں، بشارالاسد مکالمہ البلاغ کا ایک اہم رکن ہے اور شام کا صدر بھی۔ بشارالاسد کا پورے عرب میں امیج بہت اچھا تھا۔ عرب دنیا امریکہ و اسرائیل سے سخت نفرت کرتی ہے مگر وہاں کے حکمران امریکہ و اسرائیل کے حامی ہیں، بشارالاسد عرب دنیا میں واحد حاکم ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں سٹینڈ لیتا ہے۔ اسی لیے بشارالاسد عرب عوام میں مقبول بھی تھا۔ بشارالاسد نے ایران، فلسطین اور حزب اللہ( لبنان) کو سپورٹ کیا۔ نتیجة خطے میں امریکہ کے تمام منصوبے ناکام ہوئے۔ اب جبکہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی تو اس وقت ایک بات واضح تھی اور وہ یہ کہ لیڈرشپ کا فقدان تھا اور بشارالاسد اس حوالے سے ایک اہم رول ادا کر سکتے تھے لیکن اسے متنازعہ بنا دیا گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے یورپی اور امریکی لیڈر شپ کو ٹف ٹائم دیا، دوسرے الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کردیا گیا جس سے اس کا سارا امیج خراب ہوگیا، احمدی نژاد مظلوموں کے حقوق اور عالم بشریت کا پیغام بہترین انداز میں پیش کر رہا تھا اور عالمی استعمار کو رسوا کر رہا تھا لیکن جب الیکشن میں حالات خراب کئے گئے تو اُن پر بیرون ممالک سے انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ وہ خود تو غیر قانونی طریقے سے الیکشن جیت کر آئے ہیں، باقاعدہ سازش کے تحت یہ کام انجام دیا گیا۔ بشارالاسد کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا گیا۔ بشارالاسد کا امیج سعودی عرب و دیگر ممالک کے ذریعے خراب کیا گیا۔ ان کے فوجی گروہوں کو اُکسایا گیا تاکہ وہ ٹکرائیں اور اس کے خلاف جوابی ایکشن ہو گا جس کے نتیجے میں بشارالاسد کو بدنام کیا جائے گا۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ شام میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ شام کے عوام کی اکثریت بشارالاسد کے ساتھ ہے۔ بشارالاسد کے حق میں لاکھوں کے اجتماعات اور بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں اب ملک کے اندر سے تو سازش ختم ہو گئی لہٰذا باہر سے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا گیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آمروں کو ان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ اردن کا صدر خود ایک آمر ہے، سعودی بادشاہ کو دیکھیں یہ خود ایک قاتل ہے وہ شام کیخلاف بات کرتا ہے، کیا یہ شاہ بحرین میں قتل عام نہیں کروا رہا؟ یہ سب خ