اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
منگل

8 نومبر 2011

8:30:00 PM
277407

جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال

علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جائے

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فرزند ارجمند جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ سوائے علیحدہ ملک کے قیام کے پاکستان میں تصور اقبال کے مطابق کچھ نہیں ہوا، علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جائے.

ابنا: شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فرزند ارجمند جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ سوائے علیحدہ ملک کے قیام کے پاکستان میں تصور اقبال کے مطابق کچھ نہیں ہوا، علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جائے، فوجی یا سول حکومتوں نے اسلامی فلاحی ریاست کی طرف توجہ دی اور نہ ہی ہم جمہوریت چلا سکے، اقبال کے سلطانی جمہور کے مطابق ملک کو تقلیدی نہیں، اجتہادی سوچ کے مطابق چلایا جائے، علامہ اقبال پاکستان سے زیادہ ایران میں مشہور ہیں، ایرانی سمجھتے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی پیشین گوئی اقبال نے کی تھی، علماء دیوبند اقبال کے نظریات کو کفریات سمجھتے ہیں۔ علماء دیوبند کے مطابق پاکستان اسلام نہیں، اقبال کے فلسفے کی بنیاد پر بنا۔

 جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال فرزند اقبال ہیں۔ انہوں نے تحریک پاکستان کو اپنے گھر میں پروان چڑھتے دیکھا۔ ان کی ملاقاتیں اپنے گھر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سمیت متعدد شعرا اور رہنماوں سے ہوئیں۔ وہ خود بھی فلسفی انداز تفکر اور گفتگو رکھتے ہیں۔ اور خود اپنے والد کے کلام کی تشریح میں ثانی نہیں رکھتے۔ جاوید نامہ میں علامہ نے ان کے نام ایک نظم بھی نئی نسل کے لئے تحریر کی۔ وہ نامور وکیل کے بیٹے ہیں اور وکالت میں خود بھی بڑا نام کمایا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ البتہ پیدائشی طور پر مسلم لیگی ہونے کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر بھی رہے، مگر پارلیمنٹ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ بہت حساس طبیعت کے مالک ڈاکٹر جاوید اقبال سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے کلام اقبال اور پاکستان کے موجود ہ حالات کے حوالے سے انٹرویو کیا، جو قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کو اپنے عظیم والد علامہ اقبال کا یوم پیدائش مبارک ہو۔ آپ ان کا یوم پیدائش کس طرح مناتے ہیں۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال: ان دنوں سالگرہ منانے کی رسم ہی نہیں تھی۔ ہم نے کبھی ان کی سالگرہ نہیں منائی اور نہ ہی علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا کیا۔ پاکستان بننے کے بعد سالگرہ منانے کی تقریبات کا رواج ہوا۔ علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش 9َ نومبر 1877ء کا دن بھی کہیں درج نہیں۔ پاکستانی حکومت نے جب یوم پیدائش منانے کا پروگرام بنایا تو علامہ کا جرمنی میں لکھا گیا تحقیقی مکالہ دیکھا گیا تو اس میں انہوں نے اپنی ہجری سال کی تاریخ پیدائش لکھی تھی۔ اس تحریر کردہ تاریخ سے مطابقت کی عیسوی سن کی تاریخ کا حساب لگایا گیا۔ جو اب استعمال کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے خود اپنی زندگی میں کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ ان کی وفات کے بعد اقبال میموریل کمیٹی نے 21 اپریل کو یوم وصال منانا شروع کیا۔ البتہ ان کی زندگی میں ایک دو بار یوم اقبال منایا گیا، جس کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں تھی۔ پھر ایک رسم بن گئی، جو اب تک جاری ہے۔

اسلام ٹائمز:کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال اور بانی پاکستان نے دیکھا تھا۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال: علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان سے متعلق جو خواب دیکھتے رہتے تھے۔ اس میں سے سوائے علیحدہ ملک کے قیام کچھ نہیں ہوا۔ ہم ان کے یوم پیدائش یا یوم وفات مناتے ہیں، ایسے ہی ہے جیسے کسی بزرگ کا عرس یا برسی منا کر ان کی یاد کو تازہ کر لیا جائے۔ مگر ان کے تصورات سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی ان خیالات کو مانتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا علیحدہ ملک بن گیا ہے، بس یہی کافی ہے۔ علامہ اقبال کا تصور ہے کہ مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ دور کرنے کے لئے قرآن مجید کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جائے۔ کیونکہ وہ کمیونزم اور کیپیٹلزم کو مسترد کرتے تھے۔ پاکستان ت وبن گیا، مگر ہر دس سال بعد آنے والی فوجی حکومتیں ہوں یا سول قیادتیں، کسی نے اسلامی فلاحی ریاست کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی ہم نے اسے نافذ کیا ہے۔ نہ لوگوں کی ضروریات کو حکومت نے پورا کیا ہے اور نہ ہی ہم جمہوریت کو چلا سکے ہیں۔ بار بار فوجی مداخلتوں نے ملکی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ جبکہ سول قیادتوں نے سوائے الزامات کے کچھ نہیں کیا۔ میں خود سینیٹ کا رکن رہا ہوں۔ پارلیمنٹ میں بھی سوائے الزام تراشی کے کچھ نہیں کیا جاتا۔ اقبال کا اصل پیغام سلطانی جمہور ہے۔ جس کے مطابق ملک کو تقلیدی نہیں، اجتہادی سوچ کے مطابق چلایا جانا تھا، کیونکہ یہ ملک بھی اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے۔ لٰہذا یہاں تقلیدی سوچ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اجتہادی سوچ ہی اصل سوچ ہے اور اسی سوچ سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں اور ملک چلا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:کیا وجہ ہے کہ علامہ اقبال پاکستان سے زیادہ ایران میں مقبول ہیں۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال: علامہ اقبال پاکستان سے زیادہ ایران میں اس لئے مشہور ہیں کہ انہیں انقلاب اسلامی کے پیش گو کے طور پر لیتے ہیں۔ علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم میں وہ ایرانی نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ وہ روزن دیوار سے تمہیں آزاد کرانے والا دیکھ رہے ہیں۔ تو اس طرح وہ سمجھتے ہین کہ بانی انقلاب اسلامی کی آمد کی پیشین گوئی حضرت علامہ نے کر دی تھی۔ ایرانی انہیں اقبال لاہوری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ اقبال کا تہران کو مشرق کا جنیوا قرار دینے کے پیچھے کیا حکمت ہے۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال: علامہ نے اپنے شعر میں کہا تھا: تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید اس کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے اس وقت کی اقوام متحدہ، لیگ آف نیشنز تھی۔ جس پر علامہ اقبال کا تصور تھا کہ یہ ادارے عالمی مقاصد کے حصول کے لئے نہیں، بلکہ دراصل یہ عالمی استبداد کے ادارے ہیں۔ چونکہ ان پر اثر و رسوخ مغربی ممالک کا ہے، انہیں مشرقی اقوام کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لئے اقوام مشرق کو چاہئے کہ وہ اپنا اقوام متحدہ خود بنائیں۔ جس کا مرکز ایران کا دارالخلافہ تہران ہو، چونکہ ان میں جرات بھی اور تہران کو مرکزی حیثیت بھی حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز:علماء کی طرف سے علامہ اقبال کی شاعری پر اعتراضات کیوں کئے گئے۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال:علمائے دیوبند نے علامہ اقبال کی شاعری اور تصورات پر اعتراضات کئے ہیں، مگر وہ اپنے مطلب کی شاعری کی تعریف ہی کرتے ہیں۔ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی سے وہ بہت خوش ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں اسلام کے نام پر سیاست کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے علامہ نے کہا تھا کہ: دین کافر، فکر تدبیر جہاد دین ملاں فی سبیل اللہ فساد علم ء دیوبند اقبال کے نظریات کو کفریات سمجھتے ہیں، چاہے وہ جاوید نامہ ہو یا Reconstruction Lectures انہیں ان پر اعتراض ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جس اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ وہ اقبال کے فلسفے کا دوسرا نام ہے۔ وہ اسے اسلام نہیں، اقبال کا فلسفہ سمجھتے ہیں۔ دراصل علامہ کا شیخ الہند سے اختلاف تھا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں یا ایمان اور عقیدے سے۔ علامہ کا تصور ہے کہ قوموں کی تشکیل عقیدے پر ہوتی ہے، مگر شیخ الہند وطن کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کے قائل تھے۔ اقبال کا تصور تھا کہ ملاوں نے مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کر کے اختلافات کو ہوا دی ہے، جس سے اسلام کے ماننے والے تقسیم ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ کی رہائش گاہ پر آپ سے منسوب جاوید نامہ کی پینٹنگ موجود ہے۔ اس حوالے سے بتائیے۔؟ ڈاکٹر جاوید اقبال: پہلی بات تو یہ ہے کہ جاوید نامہ مجھ سے منسوب نہیں۔ جاوید کا مطلب ابدی زندگی ہے ۔یہ معراج رسول ص  سے تصور لیتے ہوئے، علامہ نے معاشرے کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے۔ جس میں رومی، نادر شاہ، ٹیپو سلطان، امیر خسرو اور دیگر شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر جنت تک پہنچتے دکھایا گیا ہے۔ جاوید نامہ میں مجھ سے مخاطب صرف ایک نظم ہے، جس میں نوجوانوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ چونکہ مشرقی شعرا کا خاصہ رہا ہے کہ وہ نئی نسل کو اپنے بیٹے کے نام سے پیغام دیتے تھے۔ میرے گھر میں علامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ ایک دیوار پر مصور جمی انجینیر کا بنی ہوئی مصوری موجود ہے۔ جس پر جاوید نامہ میں مختلف مدارج پر معراج انسان کی علامہ اقبال کے تصور کے مطابق مصوری کی گئی ہے۔ اسے ایک سال کی مدت میں مصور نے بنایا تھا۔ وہ فارسی تو سمجھتے نہیں تھے ہم مختلف مدارج پر بحث کرتے، اس کا خاکہ بناتے۔ خیال تھا کہ اس مصوری کو ایوان اقبال لاہور یا ایوان صدر اسلام آباد میں لگایا جائے گا، جس پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا۔

..............

/169