اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
پیر

24 اکتوبر 2011

8:30:00 PM
274369

علامہ افتخار حسین نقوی:

انقلاب اسلامی ایران دنیا میں اصل تشیع کی شناخت کا باعث بنا

ضلع میانوالی میں اہل تشیع کا کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا، چنانچہ فیصلہ ہُوا کہ امام خمینی رح کے نام سے یہاں ایک مدرسہ بننا چاہیئے۔

ابنا: اگست 1982ء میں پنجاب کے اس پسماندہ ترین ضلع میانوالی کے پسماندہ ترین گاؤں ماڑی اِنڈس میں مدرسہ امام خمینی رح کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، جہاں کوئی بھی سہولت (ٹیلی فون وغیرہ) میسر نہ تھی، ایک جنگل سا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ 1983ء میں چار کمرے بنا کر پڑھائی شروع کر دی۔ 1984ء میں قائدِ مِلّتِ جعفریہ سیّد عارف الحسینی رح کا اِنتخاب ہُوا۔ اب الحمدُللہ صورتِحال بالکل برعکس ہے۔ دیکھیں کہ اب پانچ سو کے قریب مدرسے قائم ہو چکے ہیں۔ خواتین کے مدرسے کا تو تصور ہی نہیں تھا، پاکستان میں خواتین کے پہلے مدرسہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ کی بنیاد پکی شاہ مردان میں، میں نے رکھی۔ اسی کے ساتھ ایران کے تعاون سے جامعۃ الزہرہ س یہاں اِسلام آباد میں قائم ہُوا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے کہا کہ بھلا خواتین کو بھی دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب الحمدللہ ہر عالم نے یہ کوشش کی ہے کہ اُن کے مدرسے کے ساتھ ایک خواتین کا بھی مدرسہ ہو۔ اب خواتین کے ساٹھ ستر مدارس ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچیاں پڑھ کر گئی ہیں۔ اب حالات میں بہت بڑی تبدیلی کا رُجحان ہے اور اس کے کافی ثمرات ہم دیکھ رہے ہیں۔

علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی رہ کے انچارج ہیں۔ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب سے انکی ابتدائی زندگی سے لے کر موجودہ مقام تک پہنچنے اور دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ چونکہ اسلام ٹائمز کا علامہ سید افتخار حسین نقوی سے یہ پہلا انٹرویو تھا اسلئے روٹین سے تھوڑا لمبا ہو گیا ہے۔ لہذا قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے اس دو قسطوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو اپنے اِبتدائی حالات اور خاندانی پس منظر سے قارئین ’’اِسلام ٹائمز‘‘ کو آگاہ فرمائیں۔  علامہ افتخار حسین نقوی: یہ ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ ہم نقوی البخاری سیّد ہیں اور سید جلال الدین بخاری کی اولاد سے ہیں، جن کا مزار اوچ شریف ڈسٹرکٹ بہاولپور میں ہے۔ وہ بخارا سے یہاں آئے تھے۔ البتہ ان کے بیٹے سید علی سرمست جو ان کے ساتھ آئے تھے، ان کے دو بیٹے وہیں رہ گئے تھے۔ سید صدر الدین بدرالدین بخاری (باکھری) سکھر میں روہڑی دریا کے کنارے ان کا مزار ہے جس پر سبز واری لکھا ہوا ہے۔ شاہ جمال کومونڈکہ ایک جگہ ہے وہاں پر ہمارے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں۔ سید سنوارے شاہ ہمارے جد اعلٰی تھے۔ خان گڑھ کا ایک علاقہ ہے ٹھل مراد شاہ، عاقل شاہ، یہ دریائے چناب کا کنارہ ہے وہاں پر آ کر یہ سادات آباد ہو گئے، یعنی سندھ کے کنارے پر بھی تھے اور چناب پر بھی۔ میرے دادا کا نام سید مراد شاہ تھا، جو سکندر شاہ کے فرزند تھے اور سکندر شاہ غلام علی شاہ کے فرزند ارجمند تھے، ان سے اوپر چلیں تو غلام علی شاہ، مراد علی شاہ کے فرزند تھے اور مراد علی شاہ، سنوارے شاہ کے صاحبزادے تھے۔ ویسے عزاداری تو گھروں میں ہوتی تھی لیکن باقاعدہ شیعہ ہونے کا اعلان انہی نے کیا۔1935ء میں بڑا سیلاب آیا، خان گڑھ میں سادات کی ایک بہت بڑا حویلی تھی، جس میں سارے سادات اکٹھے ہی رہتے تھے۔ پردہ داروں کو لانے، لے جانے کے لیے اونٹ اس حویلی کے اندر آ کے بیٹھتا تھا، تو جب چناب میں ایک خوفناک قسم کا سیلاب آیا جس میں ساری آبادیا ں ختم ہو گئیں تو یہ لوگ وہاں سے ہجرت کر کے ملتان، مظفرآباد آ گئے۔ میر ے دادا کی قبر وہیں پر ہے۔ میری ولادت اسماعیل آباد ٹیکسٹائل کے قریبی علاقے جنگل بہیڑہ میں ہوئی۔ اس وقت کنوئیں ہوتے تھے اب وہاں آبادیاں ہو گئیں ہیں۔ میری پیدائش ایک غریب گھر میں ہوئی تھی۔ جب ہم سیلاب سے متاثرہ لوگ یہاں آئے تو میرے دادا نے ایک زمیندار کے ہاں مزارعے کا کام انجام دیا اور تھوڑی سی زمیں لے لی، بیس پچیس بیگھے (ایک ایکڑ میں دو بیگھے ہوتے ہیں)۔ میرے بابا کا نام سید منظور حسین شاہ تھا، سید صدر الدین شاہ ان کے بھائی تھے۔ ہم تین بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کا نام سید ذوالفقار علی ہے۔ وہ ملتان اور بعد ازاں جھنگ میں پیش نماز کے طور فرائض سر انجام دیتے رہے۔ میرا بچپن اسی علاقے میں گزرا، پہلی اور دوسری جماعت اسماعیل آباد ٹیکسٹائل مل کے ہائی سکول میں حاصل کی۔1962ء میں میرے والد صاحب بھکر آ گئے، جہاں میں نے تیسری کلاس پڑھی۔ اسماعیل پور میں مغیث اے شیخ کی کپڑے کی ایک مل ہے۔ میرے والد صاحب وہاں ملازمت کرتے تھے۔ وہاں ہماری رہائش چھکڑ بستی میں تھی۔ اسماعیل پور اور چھکڑ بستی کا تین میل کا فاصلہ تھا یہ راستہ ریت کے ٹیلوں سے بھرا ہُوا تھا۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس میں نے یہاں پڑھی۔ وہاں سے پیدل سکول آتے تھے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ہمارے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ تپتی ریت پر پاؤں رکھنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ریت پر اُگنے والے پودوں پر پاؤں رکھ کر پاؤں کو ٹھنڈا کرتے پھر گرم ریت پر گامزن ہو جاتے تھے۔ ہمارے گھر غربت و فقر تھا، والد صاحب مسلسل مزدوری کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں انہیں حیدر آباد، سندھ کے دُور دراز علاقوں میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ غالباً 1968ء میں جس سال ملتان بورڈ بنا، میں نے اسی سال میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہی دِنوں والد صاحب کسی سفر پر گئے، ان کی واپسی کا انتظار طویل تر ہوتا گیا، حتٰی کہ چھ ماہ بِیت گئے۔ چونکہ ان کی طرف سے خیر و عافیت کی کوئی اِطلاع نہ تھی، لہٰذا ہم نے یہی سمجھا کہ وہ اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ ہماری والدہ بہت پارسا، نیک خاتون تھیں اور بے حد محنتی، خوددار اور غیور تھیں۔ ہمارے چچا اور دیگر رشتے دار مال دار اور بڑی بڑی زمینوں کے مالک تھے جبکہ خود ہمارے حصے کی جو زمین تھی، وہ کوئی خاص آمدن نہیں دیتی تھی۔ جب ہم نے میٹرک کا داخلہ بھیجنا تھا تو درکار رقم گھر میں موجود نہ تھی۔ میری والدہ نے چھوٹی بہن کی بالیاں بیچ کر میری فِیس کا اِنتظام کیا تھا۔ جب میں نے میٹرک کر لی تو اماں جی کا خیال تھا کہ میں کوئی کلرکی وغیرہ کروں، کیونکہ تنگدستی کے باعث حالات اِسی بات کے مقتضی تھے۔ والد صاحب کی عدم موجودگی میں والدہ ہی ہمیں سنبھالے ہُوئے تھیں۔ چنانچہ میری ملازمت کی بات کرنے کی غرض سے والدہ میرے رشتے کے ایک چچا سید راجن شاہ کے ہاں خود چل کر گئیں۔ ان کی ایک سیاسی شناخت تھی اور وہ بہت مالدار بھی تھے۔ انہوں نے میری ملازمت کی حامی بھر لی، لیکن اِسی اثناء میں والد صاحب کا خط آ گیا۔ پتہ چلا کہ وہ ایک طویل، مشکل اور جاں گسل سفر کے بعد کربلا پہنچ چکے ہیں۔اِس خط میں میری بابت خاص طور پر لکھا گیا گیا تھا کہ میرے بیٹے کو کسی اور جگہ (ملازمت وغیرہ کے لیے) نہیں بھیجنا، صرف دینی تعلیم کے لیے بھیجنا ہے۔ تو میری زندگی کا یہ وہ موڑ ہے جس نے میرے حالات کا رُخ علم اور دینی تعلیم کی طرف پھیر دیا۔ آج مَیں اسی حیثیت میں آپ کے سامنے موجود ہُوں۔ اِس ضمن میں یہ بات دِلچسپ ہے کہ والد صاحب نے قُبۂ حسینی ع میں تین دُعائیں مانگی تھیں، جن میں ایک دُعا میرے متعلق یہ تھی کہ جس طرح یہ جو عماموں والے یہاں پھر رہے ہیں، میرا بیٹا بھی اِسی طرح دِین کا عالِم بنے۔ دوسری دُعا یہ تھی کہ میرے جتنے بھی غریب رشتے دار ہیں، میں انہیں زیارت پہ لے آؤں، کیونکہ امیر تو سارے ہی جاتے ہیں، میرے توسط سے میرے ان غریب اعزاء کو بھی زیارت نصیب ہو جائے۔ تیسری دُعا یہ تھی کہ مولا مجھے کوئی نشانی دے۔ تو اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ضریح کے اندر سے مجھے ایک سبز کپڑا دیا گیا، جسے اکثر وہ اپنی کمر کے ساتھ باندھے رکھتے تھے۔ ہر چند کہ اماں پریشانی کے عالم میں تھیں لیکن ابا جان کے اس خط کے بعد انہوں نے مجھے شیعہ میانی منظرالعلوم عربیہ جعفریہ میں داخل کروایا۔ تو یوں میری دینی تعلیم کا آغاز ہُوا۔ بسم اللہ میں نے قائد مِلّت جعفریہ علامہ سیّد ساجد علی نقوی سے ہی کی۔ اولٰی اور ثانیہ کی کتب ہم نے شیعہ میانی میں پڑھیں۔ پھر دو افراد مجھے نجف تعلیم کے لئے لیجانے کا باعث بنے، ایک آغا سید ساجد علی نقوی اور دوسرے میرے والد محترم جو آغا حکیم کے مقلد تھے۔ کچھ لوگوں نے مجھے نجف جانے سے روکنے کے لئے ادھر اُدھر کی باتوں میں لگانے کی کوشش کی اور اس طرح کے مشورے دیئے کہ میں الیکٹریشن وغیرہ کا کام سیکھ لوں اور پیسے کماؤں۔ میں وقتی طور پر ان کی باتوں میں آ بھی گیا مگر بعد میں اللہ کا کرم ہوا کہ علامہ ساجد علی نقوی نے مجھے والد کی ہدایت پر عمل کرنے پر زور دیا، چنانچہ میں اس قافلے کی ہمراہی میں نجف اشرف کے سفر پر روانہ ہُوا۔ میں نے اگر اُس وقت والد صاحب کی نافرمانی کی ہوتی تو یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑی تباہی ثابت ہوتی۔ نجف اشرف جب پہنچ گئے تو سرگودہا کے شیخ منظور حسین ۔۔۔۔، آج کل وہ لندن میں ہوتے ہیں تو ان دنوں وہ مدرسہ مہدیہ میں درس تدریس سے منسلک تھے جو کہ آیت اللہ کشف العطاء کا مدرسہ تھا۔ میں وہاں ڈیڑھ سال تک زیر تعلیم رہا، اسی دوران علامہ ساجد علی نقوی وہاں تشریف لے گئے۔ یہ آیت اللہ حکیم کا آخری دور تھا وہ کوفہ میں نظر بند تھے۔ جب وہ جمعے کے روز زیارت کے لئے تشریف لاتے تو ہم ان کا والہانہ استقبال کرتے اور حکومت وقت کی ناانصافی کے خلاف اور زیادتی کے خلاف جلوس نکالتے تھے۔ اس وقت حسن البکر جیسا جابر حکمران وہاں مسلط تھا۔ علامہ ساجد نقوی سے پھر میں نے کسب فیض کرتے ہوئے دروس کو دہرایا اور ان علوم کو فارسی اور عربی میں سیکھا۔ دوسرے پاکستانی جن سے میں نے استفادہ کیا ان میں امداد حسین نقوی اور مولانا کرامت حسین نقوی بھی شامل ہیں، جن سے میں نے کتاب فقہی کتاب مسائل المنتخبہ پڑھی۔مولانا غلام حسین نجفی شہید سے منطق صغریٰ کبریٰ کے قاعدے پڑھے۔ علامہ ساجد علی نقوی سے میں نے زیادہ استفادہ کیا اور ان سے اصول و نحو، فقہ اور عقائد کی کتب پڑھیں۔ ان کی فکر اور سوچ میں بڑی وسعت تھی، تنگ نظری نہیں تھی، چنانچہ اس نے ہمارے لیے بہت رستے کھولے۔ ان کے علاوہ دیگر نامور علمائے دین سے خوب استفادہ کرنے کا موقع مِلا، جن میں آیت اللہ محمد علی مدرس، آیت اللہ شیخ عباس کوچانی، آیت اللہ العظمٰی بشیر وغیرہ شامل ہیں۔ دینی تدریس کے اس تسلسل کے چار مراحل ہوتے ہیں جن میں پہلا مرحلہ مقدمات کا جو تقریباً تین چار سال چلتا ہے۔ دوسرا سطوح، تیسرا مرحلہ ہوتا ہے خارج (زبانی لیکچرز) اور آخری مرحلہ جب انسان خود تدریس بھی کر رہا ہوتا ہے اور صاحب الرائے ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اساتید کوئی موضوع دیتے ہیں اور اس پر استدلالی بحث لکھی جاتی ہے اور اس بحث کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے کہ خود سے قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے حکم شرعی نکال کر سکتا ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ تم مجتہد بن گئے ہو، اب تم کسی کی تقلید نہیں کر سکتے، تم اپنے فتوے پر عمل کرو گے۔ مثلاً یونیورسٹی میں جیسے