اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

19 اکتوبر 2011

8:30:00 PM
273231

المنار ٹی وی کے اہم اور مفصل انٹرویو

سید حسن نصراللہ: ایران اور لبنان پر حملہ نہیں ہوگا

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف الزام تراشیوں اور تشہیری مہم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکہ نے براہ راست رابطے کی درخواست دی تھی جو ایران نے مسترد کردی چنانچہ امریکیوں نے جذباتی ہوکر علاقے میں نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کردی۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے المنار ٹی وی چینل کے ساتھ تین گھنٹوں پر محیط گفتگو کے دوران علاقائی انقلابات، ان انقلابات کو ہائی جیک کرنے اور اپنے مفاد میں ختم کرنے کی کوششوں اور سازشوں، لیبیائی انقلاب اور امام موسی صدر کے انجام، ایک صہیونی قیدی کے بدلے ایک ہزار سے زائد فلسطینی اسیروں کی رہائی، عراق سے امریکی افواج کے انخلاء اور عراق پر بڑھتے ہوئے مغربی دباؤ، ایران پر حالیہ امریکی بہتان تراشی اور رفیق حریری ٹربیونل سمیت لبنان کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اس گفتگو کے آخر میں صہیونی ریاست کے ممکنہ حملے اور مزاحمت تحریک کے ہتھیاروں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صہیوری ریاست کے اندرونی صورت حال اس ریاست کو لبنان پر حملہ نہیں کرنے دے گی۔

المنار ٹی وی چینل کے ساتھ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے انٹرویو کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے:

انقلابات کو ہائی جیک کرنے کی مغربی سازشیں امریکہ انتخابات کے نتائج کے لئے احترام کا قائل نہیں ہےسید حسن نصر اللہ نے کہا: امریکہ اور مغربی ممالک علاقے کے انقلابات کو منحرف کرکے اپنے مفاد میں لوٹانا اور ہائی جیک کرنا چاہئے اور جب وہ دیکھیں گے کہ انقلابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کریں گی تو وہ ان حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں گے اور ان ممالک میں بغاوتیں اٹھائیں گے۔

انھوں نے کہا: عربی انقلابات کے آغاز سے اب تک آٹھ مہینے گذر چکے ہیں اس عرصے میں ہم نے مختلف مقامات پر لوگوں سے رابطے کئے اور معلومات حاصل کیں تو ہمیں معلوم ہوا کہ جو نظریہ ہم نے پیش کیا تھا وہ مکمل طور پر درست تھا اور اس وقت مختلف ممالک میں حقیقی تحریکوں کا آغاز ہوچکا ہے جن کی ابتداء تیونس سے ہوئی اور پھر دوسرے ممالک میں بھی پھیل گئیں اور ہم نے جو دیکھا وہ عوامی عزم اور قومی عزم کا ثمرہ ہے اور اس میں امریکی سازشیں کارفرما نہیں ہیں۔ جو حکومتیں ان ملکوں پر مسلط ہیں وہ درحققت امریکی حکومتیں ہیں اور امریکہ بھی کسی صورت میں بھی اپنی حامی حکومتوں کے زوال کا خواہاں نہیں ہے گوکہ شام کی حکومت کا مسئلہ مختلف ہے لہذا امریکی ان انقلابات کو منحرف کرنے کے لئے کوشاں ہے اور یہ ایک فطری سی بات ہے چنانچہ ہمیں امریکہ سے یہ توقع ہرگز نہیں ہے کہ آسانی کے ساتھ ان حکومتوں کے زوال کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔

جب امریکوں نے عربی انقلابوں کے میدان میں قدم رکھا اور ان ان انقلابات میں امریکی مداخلت شروع ہوئی اس وقت سے ان کی کوشش رہی ہے کہ اپنے نقصانات کو کم کردیں، اور عالم عرب میں اپنے مخدوش چہرے کی تعمیر کردیں کیونکہ سروے رپورٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم عرب اور عالم اسلام میں امریکی کارکردگی سے نفرت کی سطح بہت وسیع ہے۔ امریکہ نے نئی حکومتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور ابھی تک یہ انقلابات انتہائی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ تیونس میں لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ان کا یہ اقدام بہت خوش آئند ہے اور ہم دیکھ لیں گے کہ انفلاب کا نتیجہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حاصل ہونے والے نتائج کا احترام ہوگا؟ اگرچہ یہ بات بھی یقین سے نہیں کی جاسکتی کہ معرض وجود میں آنے والی حکومتیں عوامی ہیں یا پھر امریکہ کی تابع ہیں؟

اس صورت حال میں لازم ہے کہ عوام کو آگاہ کرنا چاہئے اور انہیں جان لینا چاہئے کہ امریکہ کبھی بھی عرب اقوام کا دوست تھا نہ ہوگا، نتخابات میں شرکت کو حرام قرار دینے والے فتوے ہرگز لازم العمل نہیں ہیں، اور یہ کہ اگر قومیں جاگ جائیں، آگاہ ہوجائیں، انتخابات اتفاق و اتحاد اور مفاہمت کے ساتھ شرکت کریں تو اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔ کیونکہ جب امریکی سمجھیں گے کہ نئے قائم ہونے والے نظآمات امریکی مفادات کے محافظ نہیں ہیں تو وہ ان نظامات کو سرنگون کرنے اور ان ملکوں میں بغاوتیں شروع کروانے کی کوششیں کرے گا اسی لئے ان نظامات اور نئی حکومتوں کو عوامی حمایت کی ضرورت ہے اور بے شک اصل کامیابی شہداء کا مقدر ہے۔

امریکہ عظیم تر مشرق وسطی کے منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہےہدف: ملکوں کو تقسیم کرناصہیونی ریاست پورے خطے کے لئے خطرہ ہے اور امریکہ اس ریاست کے مفاد میں عظیم تر مشرق وسطی کے منصوبے کو ایک بار پھر زندہ کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد علاقے کے ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔علاقے کے ممالک کے لئے پہلے درجے کا خطرہ صہیونی ریاست کا وجود ہے اور ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اب جو ہمیں اس خطرے کا سامنا ہے تو کیا ہمیں اس کے مد مقابل ایک اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے یا نہیں کیا ہمیں متحد ہونا چاہئے یا نہیں؟اسرائیل کا وجود تمام ممالک کے لئے خطرہ ہے اور دوسرا خطرہ مشرق وسطی میں امریکہ کی موجودگی ہے اور وہ اپنی اس موجودگی کے دوران ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ اور اس سے پہلے اس کو اس منصوبے پر عملدرآمد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن اب اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

پوچھا جاسکتا ہے کہ عظیم تر مشرق وسطی کا منصوبہ خطرہ کیوں ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ منصوبہ خطے کے ملکوں کو نئے سرے سے تقسیم کرنا چاہتا اور فرقہ وارانہ اور قوم و نسل کی بنیاد پر نئے ملکوں کی تشکیل چاہتا ہے اور سازش یہ ہے کہ یہ نئے ممالک مسلسل کشمکش اور جنگ وجدل کی حالت میں رہیں تا کا اسرائیل علاقے کی طاقتور ترین ریاست ہو اور یہ ممکنہ صورت حال مسلمانوں، عیسائیوں اور علاقے کی تمام قوموں کے لئے خطرناک ہے۔

تیسرا بڑا خطرہ انتہاپسند ٹولےعلاقے کے لئے تیسرا بڑا خطرہ انتہاپسند ٹولے ہیں جن کا ہدف صرف اقلیتی آبادیاں نہيں ہیں اور ہمارا خیال نہیں ہے کہ سنی اکثریت نے اقلیتی آبادیوں کو نشانہ بنا رکھا ہے یا کہیں کوئی سنی اکثریت کسی اقلیتی آبادی کے نشانے پر ہے۔ 

لبنان امام موسی صدر کے مسئلے کی سنجیدگی سے پیروی کرتا ہےلیبیا کی آمریت کا زوال بہت اہم ہے اور لیبیا میں نئی حکومت کی تشکیل، ملکی سالمیت اور قومی سرمایوں کا تحفظ اس ملک کے عوام کی بڑی ذمہ داریاں ہیں اور موجودہ حساس حالات میں لیبیا کی قوم پر عظیم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؛ ان ہی ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور سرکاری مشینری کو معرض وجود میں لانا اور اسی اساس پر اپنے سیاسی ڈھانچے پر نظر ثانی کرنا ہے؛ نیز لیبیا کی قوم کو ایک قومی مصالحت کے مرحلے پر پہنچنا چاہئے اور اس ضمن میں لیبیا کی سالمیت اور قومی قدرتی سرمایوں کا تحفظ بہت اہم مسئلہ ہے۔ 

امام موسی صدر کا انجام مبہم ہے؛ آج ہم لبنانی عوام خاص طور پر نہایت حساس اور جذباتی دور سے گذر رہے ہیں؛ اور ہمارے لئے ان ایام کا آغاز کئی ہفتے قبل سے ہوچکا ہے جب ہم نے امام موسی صدر کے انجام سے مطلع ہونا چاہا کیونکہ ایسی معلومات موجود نہیں ہیں جن سے استناد کیا جاسکے لہذا تحقیقات نئے سرے سے شروع ہونی چاہئیں۔ گوکہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو لبنان کی حکومت بڑی سنجیدگی سے امام موسی صدر کے موضوع کی پیروی کررہی ہے اور اس سلسلے میں بہت وسیع اقدامات ہوئے ہیں اور اس ضمن میں کچھ ایسے دوست بھی ہیں جو ہماری مدد کررہے ہيں۔ ہم نے ایک وفد لیبیا روانہ کیا ہے جو وہاں کی عبوری کونسل بھی ملاقات کرے گا، اور ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ اور ملاقات ہمیں کسی نتیجے تک پہنچاسکے اور عبوری کونسل بھی اس موضوع کی اہمیت کو سمجھ لے۔

عراق سے امریکا کا انخلاء عراقی ملت کی حقیقی فتحعراق سے امریکی افواج کا انخلاء عراقی ملت کی حقیقی فتح ہے؛ ہمارے خیال میں جو کچھ ہورہا ہے ملت عراق اور مزاحمت اتحاد اور مزاحمت کے محور اس کے حلیفوں اور ان تمام لوگوں کے لئے حقیقی فتح ہے جنہوں نے اس ملت کا ساتھ دیا اور عراق کو امریکہ کے لئے گرم اور نرم نوالہ نہیں بننے دیا اور اس کو آسانی سے نہ ہڑپ سکا اور نہ نگل سکا اور یہ امریکیوں کے لئے تاریخی شکست ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک نئی اور حقیقی سیاسی قوت میدان میں آئی اور سیاسی عمل کے ذریعے عراق میں پارلیمان اور حکومت تشکیل دی جو قوم کی حامی ہے اور جس نے امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور یہ تمام کامیابی عراقی ملک کی استقامت اور ملکی مسائل میں اس کا تعمیری کردار تھا۔

امریکی ابتداء میں عراق میں 50 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کو یقینی بنانے کے درپے تھے لیکن ان کو کامیابی میسر نہ آئی اور اس کے بعد انھوں نے 10 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کے لئے زور لگانا شروع کیا اور آخر میں وہ پانچ ہزار پر راضی ہوئے لیکن عراقیوں نے ان کی درخواست مسترد کردی اور اب 3000 امریکیوں کو عراق میں چھوڑا جارہا ہے لیکن حکومت عراق نے انہیں استثنی دینے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ انہیں قانونی اسثنی نہيں دیں گے جبکہ امریکہ اپنی فورسز متعلقہ ملک سے استثنی لئے بغیر کسی بھی ملک میں تعینات نہیں کرسکتا۔

دشمن کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم ـ عیسائی اتحادسید حسن نصر اللہ نے کہا دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم ـ عیسائی اتحاد کی تشکیل کا انکشاف کیا اور کہا: عراق میں کسی بھی مذہب اور دین کے پیروکار حملوں اور جارحیت سے میفوظ نہ رہے اور سب کو بموں اور دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا نہ شیعہ محفوظ رہا نہ سنی اور نہ ہی عیسائی۔ افغانستان بھی بدامنی کا شکار ہے اور بیرونی قوتیں وہاں بھی شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتی ہيں جبکہ افغانستان میں بھی اور پاکستان میں بھی سنیوں کو بھی بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی بنا پر ہمیں سنی اکثریت کا مقابلہ کرنے کے لئے اقلیتوں کا اتحاد بنانے کی ضرورت نہيں ہے بلکہ ہمیں اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم عیسائی قومی اتحاد ہے۔ ایسا اتحاد جس میں قوم کے تمام افراد شامل ہوں وہ تمام افراد جن کو امریکہ اور اسرائیل سے خطرہ لاحق ہے۔

ہم اقلیتوں کا اتحاد نہیں چاہتے اور ہمارا خیال نہیں ہے کہ لبنان کے عیسائی یا علاقے کے ممالک کی کوئی بھی اور اقلیت اس طرح کے اتحاد کی خواہاں ہے۔

بعض لوگ انقلاب بحرین کو نظر انداز کرکے علاقائی انقلابات کی بات کرتے ہيںسید حسن نصر اللہ نے بحرینی عوام کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملت بحرین ایک خاص مظلومیت میں مبتلا ہے اور بعض لوگ ان کے قیام کو نظر انداز کرکے علاقائی انقلابات کی بات کررہے ہیں۔ ہم نے یہاں "یکجہتی کا جشن" منایا اور تیونس، مصر، بحرین اور لیبیا کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا؛ نیز ہم نے ایسی قوموں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا جو امریکہ نواز حکومتوں کے خلاف بر سرپیکار ہیں اور جنہوں ن