اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : شیعت نیوز
جمعرات

8 ستمبر 2011

7:30:00 PM
264530

انیس19 سال سے اسیر سید اسحاق کاظمی کا خصوصی انٹرویو

سید اسحاق کاظمی سے یہ سوال نامہ اُنکی ملاقات پر جانے والے اُن کے ایک عزیز کے ہاتھ سینٹرل جیل جھنگ بھیجا گیا جس کا انہوں نے ہاتھ سے لکھ کر جواب ارسال کیا.

ابنا: سید اسحاق ساقی کاظمی گذشتہ 19 سال سے جرم بے گناہی میں سینٹرل جیل جھنگ میں قید ہیں، جون 1992 میں انہیں مولوی مختار سیال قتل کیس میں جیل میں ڈال دیا گیا، جبکہ اس وقت اسحاق کاظمی کی عمر صرف 17 سال تھی اور میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہوئے تھے، جیل میں ہی رہ کر انہوں نے ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحانات دئیے اور کامیاب ہوئے۔ اُن پر جھوٹے مقدمات

کیسے درج کیے گئے اور اُن پر کیا بیت رہی ہے؟ اس سلسلے میں اسلام ٹائمز نے اُن سے، اُن کے علاقے کےسابقہ ایم این اے امان اللہ سیال اور معروف قانون دان سید امجد کاظمی سے بات چیت کی ہے جو قارئین اسلام  ٹائمز کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

نوٹ:سید اسحاق کاظمی سے یہ سوال نامہ اُنکی ملاقات پر جانے والے اُن کے ایک عزیز کے ہاتھ  سینٹرل جیل جھنگ بھیجا گیا جس کا انہوں نے ہاتھ سے لکھ کر جواب ارسال کیا۔اسلام ٹائمز:سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں۔اسحاق کاظمی:بسم اللہ الرحمن الرحیممیرا نام سید اسحاق کاظمی ہے دوست احباب عرف میں مجھے ساقی کاظمی بھی کہتے ہیں، ہم بنیادی طور پر منڈے سیداں ڈسٹرکٹ جھنگ کے قدیمی رہائشی ہیں، ہماری بہتر تعلیم و تربیت کے سلسلے میں والد صاحب غوثیہ محلہ، جھنگ صدر منتقل ہو گئے، 1991ء میں میں نے میٹرک کے امتحان میں پورے جھنگ سے ٹاپ کیا۔ اُن دنوں جھنگ کے حالات امن و امان کے حوالے سے انتہائی کشیدہ تھے، وہ جھنگ جس کے بازار ساری ساری رات کھلے رہتے تھے، جہاں کا امن و امان مثالی تھا، لوگ آپس میں پیار و محبت سے زندگی گزارتے تھے، اُس جھنگ کو ایک مخصوص جماعت نے بظاہر فرقہ وارانہ نعرے لگاتے ہوئے قتل و غارت گری میں دھکیل دیا، مولوی مختار قتل کیس میں جرم بے گناہی میں 1992 سے میں سنٹرل جیل جھنگ میں سزائے موت کا قیدی ہوں، اس وقت مجھے قید ہوئے 19 سال اور کچھ ماہ ہو چکے ہیں۔:آپ پر قائم مقدمات کی کیا تفصیلات ہیں اور ان میں کتنی حقیقت ہے؟؟سید اسحاق کاظمی: 1992ء میں جھنگ کے حالات فرقہ وارانہ حوالے سے انتہائی کشیدہ تھے، سپاہ صحابہ کے دہشت گرد پورے جھنگ میں دنداتے پھرتے تھے، اُن میں سے ایک دہشت گرد سلیم فوجی کا جھنگ صدر میں پولیس سے مقابلہ ہو گیا اس مقابلے میں گولیوں کی زد میں آ کر مولوی مختار اور اس کا ایک اور ساتھی ہلاک ہو گیا، جبکہ سلیم فوجی فرار ہو گیا، یہ وہ واقعات ہیں جو بعد میں ہمارے علم میں آئے، چونکہ اس علاقے میں جس کے نزدیک یہ مقابلہ ہوا، سپاہ صحابہ کی اکثریت تھی، دو طرفہ پولیس کے ساتھ مقابلے میں کافی افراد زخمی بھی ہو گئے۔ جہاں یہ وقوعہ ہوا وہاں سے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہمارا گھر ہے، ہمیں اس وقوعے کی کوئی خبر نہیں تھی، میں اور میرا دوست لیاقت جعفری بائی چانس وہاں سے موٹر سائیکل سے گزر رہے تھے، چونکہ ہم ایک ہی محلے کے ہیں، سپاہ صحابہ کے مقامی افراد ہماری اچھی خاصی شناخت رکھتے تھے، انہوں نے ہمیں موٹر سائیکل سے اُتار کر پکڑ لیا۔ اُس وقت میری عمر 17 سال دو ماہ تھی۔ یہ لوگ ہمیں پکڑ کر تھانے لے گئے، تھانے میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ افراد ہمارے مولوی مختار کی ہلاکت میں ملوث ہیں، انہوں نے اپنے پاس سے ایک کلاشنکوف بھی پولیس کو جمع کروا دی۔سلیم فوجی نے اسی رات پولیس سے بدلہ لینے کے لیے پولیس وین پر فائرنگ کی اور تقریباً 7 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا، بہرحال ہمارا چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا، ہم پر جو ناجائز کلاشنکوف رکھنے کے جرم  کا الزام تھا وہ عدالت نے سماعت کے بعد بری کر دیا۔ اس کیس کے بری ہونے کے بعد ہمیں امید پیدا ہو گئی تھی کہ عدالت قتل کے مقدمے کی بھی سماعت کر کے بری کر دے گی، اس دور میں سپاہ صحابہ کا ایم پی اے شیخ حاکم تھا، جس کا اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب منظور وٹو کے ساتھ اتحاد تھا، کچھ سیاسی دباو اور کچھ سپاہ صحابہ کے دہشت گرد ونگ لشکر جھنگوی کے خوف نے کام کیا، ایک اسپیڈی ٹرائل  کے ذریعے 1994ء میں ہمیں سزائے موت سنا دی گئی، ہم نے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی خواجہ شریف کی عدالت میں ہمارا کیس سماعت کے لیے منظور ہو گیا۔ خواجہ شریف نے اس کیس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "یہ کیس عدالتی تاریخ میں تفتیشی لحاظ سے بدترین نمونہ ہے" یعنی تفتیشی ایجنسیوں نے اس کیس کے حقائق کو انتہائی بری طرح توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔ دوسرا ریلیف جو مجھ کو نابالغ ہونے کی وجہ سے ملنے والا تھا عدالت نے اس سے بھی چشم پوشی کی، کیونکہ پاکستانی قانون میں یہ درج ہے کہ کسی بھی نابالغ فرد کو سزائے موت نہیں سنائی جا سکتی۔کیس ابھی سیشن کورٹ میں ہی تھا کہ میرے والدین مجھے سے جیل میں ملاقات کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے، پیچھے سے کیس کی کوئی مناسب پیروی بھی نہیں ہوئی، بعض پوائنٹس کو بنیاد بنا کر ریلیف لیا جا سکتا تھا جو کہ نہ لیا جا سکا،  جب ہائیکورٹ میں نابالغ کی بنیاد پر ریلیف لینے کی خواجہ شریف کے سامنے استدعا کی گئی تو جسٹس خواجہ شریف نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی یہ استدعا ویلڈ valid ہے، لیکن چونکہ آپ نے یہ پوائنٹ سیشن کورٹ میں نہیں آٹھایا اس لیے یہاں پر بھی آپ کو اس سلسلے میں ریلیف نہیں دیا جا سکتا، دوسرا اس وجہ سے بھی ریلیف نہیں مل سکتا کہ یہ کیس سیکٹیرین sectarian ہے"۔ اس طرح ہائیکورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بھی میری سزا بحال رکھی۔اسلام ٹائمز: ابھی آپ کے کیس کا موجودہ اسٹیٹس status کیا ہے؟ سید اسحاق کاظمی: ابھی سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کروائی ہوئی ہے۔ لیکن عدالتی تاریخ میں بہت کم مثال ہے کہ کسی کو ریویو پٹیشن میں ریلیف relief ملا ہو۔  سیشن کورٹ کے بعد میرا مقدمہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مکمل لاوارثی کی حالت میں رہا، اگر مقدمے کی مناسب پیروی کی جاتی تو مجھے ضرور ریلیف مل سکتا تھا۔ ابھی آپ کو جیل میں مقامی عملے یا حکام کی طرف سے کیا مشکلات ہیں؟؟سید اسحاق کاظمی:اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اول تو یہاں پر کوئی سہولت ہے ہی نہیں، اگر ہو تو بھی جیل بہرحال جیل ہوتی ہے، جیل کا عملہ الحمد اللہ بہت اچھا ہے، مجھے 19 سال جیل میں جبکہ 17 سال سزائے موت کی کال کوٹھری میں ہو چکے ہیں، اتنا عرصہ کہیں پر بھی آدمی زندگی گزارے کچھ نہ کچھ واقفیت ہو جاتی ہے۔آپ نے حالات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور جیل میں بھی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا کچھ اس کی بھی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔؟سید اسحاق کاظمی:بغیر کسی ٹیوٹر کے پہلے ایف اے کا امتحان پاس کیا، پھر بی اے میں کامیابی حاصل کی، ابھی میں ایم اے پارٹ ون کا امتحان پاس کر چکا ہوں اور پارٹ ٹو کی تیاری کر رہا ہوں۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی توجہ دی قرآن مجید، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔:آپ کی رہائی کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟سید اسحاق کاظمی:سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کروائی جا چکی ہے، جس میں عدالت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیج دے۔ اس ریویو پٹیشن کا سہرا بھی مجلس وحدت مسلمین کے سر پر ہے، جنہوں نے جیل میں قید مجبور اسیران امامیہ پر توجہ دینا شروع کی ہے، دوسرا صدر پاکستان سے اپیل ہے کہ ہمارے پاس یہ یہ پوائنٹس ہیں جن کی بنیاد پر صدر پاکستان رحم کی بنیاد پر ریلیف دے سکتے ہیں۔ عمر قید میں عموماً قیدی 15 سے 16 سال کا عرصہ جیل میں گزارتے ہیں، اگر مجھے عمر قید ہو جاتی ہے تو بھی میری رہائی فوری بنتی ہے کیونکہ میں عمر قید سے بھی 4 سال اوپر گزار چکا ہوں۔:جیل کے اندر سے اپنی طرف سے اور بقیہ اسیران امامیہ کی جانب سے آپ ملت تشیع پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟سید اسحاق کاظمی:قوم سے یہیں کہوں گا کہ پہلے تجزیہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے؟ کون لوگ قوم کے ساتھ مخلص ہیں؟، میں گذشتہ سولہ سترہ سال سے یوں قید کاٹ رہا ہوں، جیسے لاوارث ہو گیا ہوں، باقی اسیران امامیہ کا بھی یہی حال ہے۔ پہلی دفعہ جیل میں جس نے ہماری حالت زار پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے وہ مجلس وحدت مسلمین ہے، میں تمام مومنین سے اپیل کروں گا کہ مجلس کے ہاتھ مضبوط کریں۔ کیونکہ یہ بے لوث افراد قوم کے ساتھ مخلص ہیں۔ اپنی قوم کے سے یہ بھی گزارش کروں گا کہ اسیران امامیہ کو ہرگز نہ بھولیں، یہ افراد محبت اہلبیت علیھم السلام کے جرم میں جیلوں میں قید و بند کی سختیاں گزار رہے ہیں۔ تمام اسیران امامیہ خصوصاً اس حقیر کو اپنی دعاوں میں خصوصاً یاد رکھیں۔ میں اسلام ٹائمز اُردو کا بھی شکر گزار ہوں کہ میری بےگناہی کی آواز اس نے تمام باضمیر اور آزاد لوگوں تک پہنچائی، آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں، یزیدیت اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکا نہیں سکے گی۔والسلام علیکم  و رحمۃ اللہ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے جھنگ کے سابقہ ایم این اے امان اللہ سیال سے رابطہ کر کے سید اسحاق کاظمی کے بارے میں اُن کا موقف پوچھا :مولوی مختار قتل کیس کے اصل حقائق کیا ہیں؟ جیل میں قید سید اسحاق ساقی کاظمی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ امان اللہ سیال:مولوی مختار قتل کیس اُن دنوں کا واقعہ ہے جب جھنگ میں سپاہ صحابہ کی مہربانیوں سے فرقہ ورانہ تشدد عروج پر تھا، حالات انتہائی کشیدہ تھے، ان دونوں میں سپاہ صحابہ کے اپنے اندرونی حالات بھی عجیب تھے، اپنے لوگ اپنے لوگوں کو مار کر مخالف فرقے پر ڈالتے رہتے تھے میں ان واقعات کا خود گواہ ہو،  مولوی مختار کے قتل کا واقعہ بھی انہی واقعات میں سے ایک ہے، جو میری معلومات ہیں اُن کے مطابق سلیم فوجی پر پولیس کا ریڈ ہوا، دوطرفہ فائرنگ میں مولوی مختار مارا گیا، پولیس واپس چلی گئی، یہ دونوں بچے سید اسحاق کاظمی اور لیاقت جعفری وہاں سے گزر رہے تھے سپاہ صحابہ کے افراد نے ان کو شور اور واویلا مچا کر پکڑ لیا، میں آپ کو یہ تصدیق کرتا ہوں کہ جو ان کے اوپر کلاشنکوف ڈالی گئی وہ سپاہ صحابہ نے خود دی تفتیشی افسر کو۔ تب جا کر ان دونوں افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹی۔میری سمجھ کے مطابق یہ دونوں مکمل طور پر بے گناہ اور معصوم ہیں، اس قتل سے اُن کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اُن دنوں جب سپاہ صحابہ ایف آئی آر کٹاتی تھی تو ہماری انتظامیہ شدید پریشرائز ہو جاتی تھی، وہ بغیر کسی تفتیش کے افراد کو جیلوں میں ٹھونس دیتی تھی، مقامی عدالتیں بھی اسپیڈی ٹرائل کر کے، حالانکہ ملٹری کا دور نہیں تھا، پھر بھی یکطرفہ اسپیڈی ٹرائل کر کے فیصلے سنا دئیے جاتے تھے۔   میں ذاتی طور پر سید اسحاق کاظمی  اور لیاقت جعفری کے خاندانوں کو جانتا ہوں، یہ خاندان انتہائی شریف اور غیور ہیں، کبھی بھی، کسی بھی دہشت گردی میں انہوں نے حصہ نہیں لیا ہے، پورے علاقے میں اس خاندان کی شرافت میں مثال دی جاتی ہے۔ میں یہ تصدیق کرتا ہوں کہ یہ دونوں بچے بے گناہ ہیں اور بلا وجہ سزا بھگت رہے ہیں۔اسی کیس کے سلسلے میں اسلام ٹائمز کے نمائندے نے معروف قانون دان سید امجد کاظمی سے بات کی اور اُن کی رائے لی۔  :آپ چونکہ سید اسحاق کاظمی صاحب کے کیس کو دیکھ رہے ہیں، لہذا آپ کی کیا رائے ہے؟ انکی رہائی کے کیا چانسز ہیں؟