اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
پیر

15 اگست 2011

7:30:00 PM
259835

پاراچنار کے لوگ کوہ استقامت کی عظیم مثال ۔۔ علی اوسط

برادر علی اوسط کا کہنا تھا کہ پاراچنار کے لوگ کوہ استقامت کی عظیم مثال ہیں، جو اس ساری صورتحال کے باوجود خدا کے حضور شکر گزار ہیں،

اشارہ از اسلام ٹائمز:  برادر علی اوسط پرانے تنظیمی افراد میں سے ہیں اور اس وقت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی پولیٹیکل سیکرٹری ہیں، وہ گذشتہ ماہ پاراچنار جانے والے امن کارواں میں شامل تھے، اسلام ٹائمز نے قارئین کے بے حد اصرار پر امن کاروان کی پاراچنار روانگی، راستے میں پیش آنے والی مشکلات، پاراچنار کے عوام کی دنیا بھر کے مومینین سے توقعات اور پانچ سال سے محصوریں کی موجودہ صورتحال اور لوگوں کے جوش و جذبے اور مقاومت سے متعلق ایک جامع انٹرویو کی خواہش کی تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام ٹائمز نے برادر علی اوسط سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ امید ہے کہ قارئین اسلام ٹائمز کی اس خدمت کو قبول فرمائیں گے۔

اقتباس: پارا چنار کے لوگوں کی دنیا بھر کے مومینین سے جو توقعات ہیں وہ صرف اور صرف اخلاقی مدد چاہتے ہیں، کہیں پر کسی نے امداد سے متعلق کوئی بات نہیں کی، لیکن ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر لحاظ سے ان کی مدد کریں، کیونکہ جن لوگوں کو پچھلے پانچ سال سے محصور کر دیا گیا ہے، ان کی ہر لحاظ مدد کی جانی چاہیے۔ ان مظلوموں پر مسلط کی جانے والی جنگوں میں دو ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں، گھروں کو مسمار کیا گیا، لوگ بیمار ہیں، کھانا پینے کو کچھ نہیں، مرہم کے لئےادویات نہیں، مہنگائی کا جن ہے کہ کسی کے قابو میں نہیں، جو چیز یہاں پر ایک سو میں ملتی ہے، وہاں پر وہ چیز تین گنا مہنگی ہے، ایسی صورتحال میں ان کی مدد کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔

اسلام ٹائمز: جناب علی اوسط؛ پاراچنار کے مظلومین کی داد رسی کے لئے جانے والے کاروان کو وہاں پہنچنے میں اتنے دن کیوں لگے، انتظامیہ کی جانب سے کیا مسائل پیش آئے، جس کے باعث 26 جولائی کو روانہ ہونے والا قافلہ اکتیس جولائی جا پہنچا۔؟ علی اوسط: جس طرح چوبیس جولائی کا اجتماع ہوا اور اُس کے بعد وزیر داخلہ نے فون کر کے اس پروگرام کو مؤخر کرنے کی درخواست کی، تاہم اُن پر واضح کر دیا گیا تھا کہ کاروان ہر صورت اپنی منزل کی جانب راواں دواں ہو گا، اُس کے بعد باہمی میٹنگوں اور مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ 26 جولائی کو کاروان یہاں سے روانہ ہو گا۔ اس فیصلہ کے بعد 26 جولائی کو کاروان نے اسلام آباد سے دو بجے روانہ ہونا تھا۔ آڑھائی بجے وزارت داخلہ سے فون آیا کہ وزیر داخلہ ملنا چاہتے ہیں، تاہم ہم نے انکار کر دیا۔ ہم نے اُن پر واضح کیا کہ کاروان ابھی روانگی کیلئے تیار ہے، لہذا اس وقت ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے۔ اس کے بعد جب کاروان روانگی کیلئے نکل رہا تھا تو اسی دوران وزارت داخلہ کی جانب سے ملاقات کیلئے چار دفعہ فون آیا تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اب جب اتنا اصرار کیا جا رہا ہے تو مل لینے میں کوئی حرج نہیں۔ کاروان کو راونہ کر کے ہم ایک وفد کی شکل میں وزیر داخلہ سے ملاقات کیلئے چلے گئے، جن میں علامہ محمد امین شہیدی، علامہ شبیر بخاری سمیت میں خود شامل تھا۔ وزیر داخلہ کے ساتھ کمشنر اسلام آباد، سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل ڈی سی، آئی جی اسلام آباد اور اے سی اسلام آباد ملاقات میں موجود تھے، ہم نے گفتگو کی اور اپنے مطالبات دہرائے۔ ہم نے کہا کہ کاروان ہر قیمت پر جائے گا اور وہ راونہ ہو چکا ہے۔ اب حکومت پر جو ذمہ داری عائد ہوتی وہ انجام دے اور جو ہمارے ذمے کام ہے وہ ہم کریں گے۔ رحمان ملک نے ہم سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، تو ہم نے کہا فول پرؤف سیکورٹی یہاں سے پاراچنار تک، تو وزیر داخلہ نے سیکرٹری داخلہ کو یہ لکھوا دیا کہ آپ سرحد حکومت سے ابھی بات کریں اور ان کو ان کی خواہشات کے مطابق فول پرؤف سیکورٹی دیں، یہاں تک کہ پارا چنار پہنچ سکیں اور واپسی پر بھی ان کو فول پرؤف سیکورٹی حاصل ہونی چاہیے۔ دوسرا موضوع جس پر وزیر داخلہ سے بات ہوئی وہ پاراچنار کے راستے کے ایشو کے حوالے سے تھا کہ اس راستے کو کھلوانے کے لئے گورنمنٹ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی اور آرمی والے جو اس وقت آپریشن کر رہے ہیں وہ آپریشن ماسٹر آپریشن نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہم نے اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا۔ اس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ ہماری ایک ملاقات کور کمانڈر پشاور سے کروائیں گے اور یہ کام پارا چنار سے واپسی کے بعد ہو گا، جس میں آپ لوگ اپنے تحفظات سے کور کمانڈر کو آگاہ کیجئے گا اور وہ آپریشن سے متعلق تمام صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد ہم وہاں سے آگئے اور کاروان میں شامل ہو گئے۔ اسلام ٹائمز:وزارت داخلہ کیجانب سے تمام تر تسلیوں کے باوجود قافلے کو تین مقامات پر روکا گیا اس کی اصل وجہ کیا سمجھتے ہیں؟ علی اوسط:صوابی کے مقام پر پہلی دفعہ صوابی انتظامیہ نے قافلے کو روکا، اگرچہ صوابی سے پہلے پنجاب ہے تو پنجاب میں اٹک اور حسن ابدال پولیس اور وہاں کی انتظامیہ نے آ کے پورے پروٹوکول کے ساتھ اس پورے قافلے اور کاروان کو اٹک پل تک پہنچایا۔ اٹک پل پر پہنچانے کے بعد انتطامیہ نے کہا کہ اب آپ کو خیبرپختونخوا کے حوالے کر رہے ہیں، ہم نے جیسے ہی پل کراس کیا تو صوابی انتظامیہ کی طرف سے پولیس کی بھاری نفری وہاں پر جمع تھی اور موٹروے بند کیا ہوا تھا یعنی ہمارا راستہ روک دیا گیا۔ جب انہوں نے راستہ روکا تو ظاہر ہے کہ کاروان کے پیچھے جتنی بھی ٹریفک تھی وہ بند ہو گئی، مذاکرات ہوتے رہے اور بلآخر کمشنر اور پولیس نے پشاور انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ہمیں جانے دیا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے ڈاریا گیا کہ آگے رسک ہے مت جائیں، مگر اڑھائی گھنٹے کے بعد صوابی پولیس نے ہمیں اس یقین دہانی پر جانے دیا کہ پہلے ہم پشاور جائیں گے اور پشاور شہر رکنے کے بعد وہاں کی انتظامیہ سے معاملات طے کریں گے اور جو حل نکلے گا اس کے مطابق عمل کریں گے۔ جب کاروان یہاں سے روانہ ہوا اور چارسدہ انٹر چینج پر موجود پہلے سے بہت بھاری فورسز والے انتظار میں تھے اور انہوں نے ایک بار پھر کارواں کو روک لیا۔ جب پوچھا گیا کہ اب کیا مسئلہ ہے؟ تو کہنے لگے کہ ہمیں روکنے کا حکم ہے۔ اُن کو کیا پریشانی تھی سمجھ میں نہیں آئی، لیکن بہر حال وہ پریشان بہت تھے۔ اُنہوں نے حکام بالا سے کچھ گفتگو شروع کی اور تقریباً ایک گھنٹے وہاں پر بھی سڑک بلاک رہی اور موٹروے بند رہا اور اس کے بعد پھر اُنہوں نے کہا کہ ہماری بات ہو گی ہے، اب ڈی سی او پشاور اور پولیس احکام، پشاور انٹرچینج پر آپ کے منتظر ہیں۔ وہاں جا کے اُن سے گفتگو کر لیں، جو بھی فیصلہ ہو اُس کے مطابق عمل کرلیں، پشاور انٹر چینج پر جیسے اُنہوں نے بتایا تھا اُسی طرح سے ڈی سی او وہاں پر موجود تھے۔ انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ دھمکیاں مل رہی ہیں، خطرات موجود ہیں، چونکہ ان خطرات کی موجودگی میں ہم آپ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، لہذا چند ایک چیزیں ایسی ہیں جن پر آپ کو تعاون کرنا پڑے گا۔ نمبر1 یہ کہ جو بھی مال بردار گاڑیاں ہیں وہ ہماری تحویل میں دے دیں، تاکہ ہم انہیں بحفاظت پشاور پہنچا سکیں، کیونکہ شرپسند عناصر کا خطرہ موجود ہے، اور پشاور میں کئی نیٹو فورسز کے ٹینکرز کو جلایا جا چکا ہے، بہرحال خدشات موجود ہیں، اس کے بعد ہم نے باہمی مشاورت کی اور ان کے اس مطالبہ کو مان لیا۔ دوسری بات اُن کی یہ تھی کہ آپ کے ساتھ جتنے لوگ عام گاڑیوں میں آئے ہیں ان کو پشاور سے واپس بھجوا جائے۔ یہ لوگ قافلے میں آگے نہ جائیں چونکہ حالات کافی سنگین ہیں اس لئے ہم سب کی جان کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنے قانون نافذ کرنے والے جوانوں کی حفاظت نہیں کرسکتے تو ان کی حفاظت کیسے کر پائیں گے۔ البتہ ہم نے پہلے سے ہی یہ بات طے کر لی تھی کہ ہم یہاں پشاور تک امن کاروان کی صورت میں لوگوں کو لے کر جائیں گے۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا کہ کارواں میں صرف مجلس وحدت کی مرکزی کابینہ اور آئی ایس او کے نمائندہ افراد سمیت چند افراد جائیں گے، اس لئے یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا۔ کیونکہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ عوام کا جانا کسی صورت بھی فائدے مند نہیں ہو گا اور یہ پاراچنار کے بھائیوں کیلئے بھی کافی مسئلہ کا باعث تھا۔ ہم نے پشاور انتظامیہ کو بتا دیا تھا کہ یہ کاروان پشاور سے واپس چلے جائیں گے، اس یقین دہانی پر ہم لوگ پشاور مدرسہ شہید حسینی گئے، اور اگلے روز جب سامان لینے گئے تو انتظامیہ کا رویہ بالکل ہی تبدیل تھا۔ اب ہم فون کرتے ہیں تو کوئی اٹھاتا تک نہیں تھا۔ اگر کوئی فون اٹھا بھی لیتا تو وہ ڈی سی او کوہاٹ پر ذمہ داری ڈال دیتا تھا۔ بڑی مشکلوں کے بعد فاٹا کے ڈپٹی سیکرٹری سے ملاقات ہوئی، اُس نے یقین دہائی کرائی کہ ہم تمام تر سپورٹ آپ کو فراہم کریں گے اور باحفاظت آ پ کو وہاں تک پہنچائیں گے۔ ایک دفعہ پھر سے پہلے کی طرح وعدہ کیا اور اس کے لئے ہم سے ایک دن مہلت مانگی گئی کہ ہم کارواں کی سکیورٹی سے متعلق انتظامات کر ر ہے ہیں۔ ہم نے اُن کو ایک دن کی اجازت دے دی کہ آپ اقدامات کریں۔ لیکن ایک دن پھر گذر گیا پھر وہی چوہے بلی کا کھیل شروع کر دیا گیا۔ جب انتظامیہ کی جانب کوئی صورتحال واضح نہیں ہو رہی تھی تو ہم نے پریس کانفرنس کی اور انتظامی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ایک دن کی مہلت دی اور پھر ملک بھر سے کارواں چلانے اور اہم شاہرائیں بند کرنے کی دھمکی دی، جس پر اگلے ہی روز انتظامیہ حرکت میں آئی اور رابطہ کیا، اور کارواں پاراچنار کے لئے روانہ ہوا۔ اسلام ٹائمز:پاراچنار پہنچنے پر وہاں کے عوام نے کس انداز میں استقبال کیا اور وہاں پر کیا مصروفیات رہیں؟ علی اوسط: پاراچنار جب پہنچے تو وہاں جتنی بھی تنظیمیں، ادارے، علماء کرام اور شخصیات ہیں انہوں نے پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ عوام کے بھی بڑے گرم جذبات تھے اُن کو یہ احساس تھا کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پہلی دفعہ پارا چنار کے موضوع کو اس طرح اُٹھایا گیا، دنیا میں اس ایشو کو زندہ کر کے کوئی قافلہ چلایا گیا، جس کا اصل مقصد پاراچنار کے ایشو کو زندہ کرنا ہے، اس وقت ان لوگوں میں ایک ولولہ تھا، ایک تڑپ تھی، اب والہانہ پن تھا اور اچھا استقبال کیا گیا۔ پاراچنار کی تقریباً تمام شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی، جن میں مرکز اور تحریک حسینی کے اکابرین سے بڑی تفصیلی میٹنگ ہوئی۔ علامہ عابد حسینی صاحب سمیت مجلس علمائے اہل بیت ع کے ساتھ بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی، اس کے علاوہ باقی جتنی چھوٹی موٹی تنظیمیں تھیں اُن تمام سے ملاقاتیں ہوئیں، شہید فاؤنڈیشن ٹرسٹ، حیدری بلڈ بنک، آئی ایس او اور امامیہ آرگنائزیشن سے بھی ملاقاتیں ہوئی۔ ان تمام میٹنگز کے بعد طے یہ پایا کہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام اداروں کی نمائندگی ہو اور وہ تمام علاقوں کی جو صورتحال ہے اُن کو سامنے رکھتے ہوئے جو ضرورت مند خاندان ہیں اُن کی مشترکہ لسٹ بنائے، اُس لسٹ کے مطابق یہ تمام سامان اُن خاندانوں اور علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔ لہذا اس مرحلے پر آکے ایک کمیٹی بنائی گئی اور یہ کام اس کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا، اس کے بعد یہ قافلہ شہید عارف الحسینی رہ کے مزار پر پہنچا، وہاں پر سلامی دی، گریہ وزاری ہوئی اور زیارت بھی پڑھی گئی اور اُس کے بعد اگلے دن قافلہ اُن تمام جنگ زدہ علاقوں میں گیا اور حالات کا جائزہ لیا۔ ی