اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
جمعرات

21 جولائی 2011

7:30:00 PM
255079

شمالی وزیرستان، کاروباری لوگ خوف سے ہجرت پر مجبور، حکومت اور طالبان دونوں ان حالات کے ذمہ دار ہیں

شمالی وزیرستان، بھتہ خوری اور مارے جانے کے خوف سے کاروباری لوگ ہجرت پر مجبور، حکومت اور طالبان دونوں ان حالات کے ذمہ دار ہیں، احسان وزی

‫ شمالی وزیرستان، بھتہ خوری اور مارے جانے کے خوف سے کاروباری لوگ ہجرت پر مجبور، حکومت اور طالبان دونوں ان حالات کے ذمہ دار ہیں، احسان وزیرٹریننگ کے دوران چھوٹے بچوں کے سامنے عام واسکٹ یا جیکٹ پہن کر ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ بچے کہتے ہیں کہ یہ واسکٹ یا جیکٹ ہے۔ (مقامی لوگ اسے واسکٹ کہتے ہیں)، پھر ان کے سامنے خودکش جیکٹ پہن کر دوبارہ پوچھتے ہیں کہ اس جیکٹ اور اس پہلے والے جیکٹ میں کیا فرق ہے؟ بچے معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں۔ اس پر انہیں موقع مل جاتا ہے اور وہ بچوں سے کہتے ہیں کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلا یا عام جیکٹ پہننے سے کچھ نہیں ہوتا جبکہ دوسرا جیکٹ پہننے اور جیکٹ میں موجود بٹن دبانے سے انسان ڈائریکٹ جنت میں چلا جاتا ہے۔ پھر ان کے سامنے قرآنی آیات اور احادیث اپنی مرضی سے تفسیر کرکے سنائی جاتی ہیں اور ان کو خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں اور نوجوانوں کے کے جنت میں جانے کے فرضی قصے سنائے جاتے ہیں۔یہ انٹرویو پشاور کے ایک نجی ہسپتال (کلینک) کی انتظار گاہ (ویٹنگ روم) میں شمالی وزیرستان کے ایک نوجوان سے اسلام ٹائمز نےخصوصی طور پر لیا، جو اپنی بوڑھی ماں کو علاج کے لئے میرانشاہ سے پشاور لایا تھا۔ میران شاہ کے یہ قبائلی نوجوان نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انٹرویو دینے  کے لئے تیار ہوئے چنانچہ اسلام ٹائمز وعدے کے مطابق اس کا نام صیغۂ راز میں رکھا، اور "احسان وزیر" کے نام سے ان کا انٹرویو شائع کیا۔اسلام ٹائمز: محترم احسان وزیر! آپ پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں آپ سمیت دیگر قبائلی عوام کو درپیش مشکلات کے متعلق کچھ بتائیں؟ احسان وزیر: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے قبائلی علاقے بالخصوص شمالی وزیرستان کے عوام کو درپیش مشکلات کے بارے میں پوچھا۔ عرض یہ ہے کہ مشکلات اور مصائب اتنے زیادہ ہیں، کہ ان کا احاطہ کرنے کے لئے کئی گھنٹے بلکہ کئی دن کا وقت چاہئے۔ تاہم نہایت مختصر طور پر عرض یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کرکے ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی وزیرستان سے اکثر صاحب ثروت اور پیسے والے مقامی لوگ دیگر شہروں جیسے ٹانک، ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور حتٰی کہ راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی میں جا کر آباد ہو گئے ہیں اور جو لوگ باقی ہیں، وہ بھی علاقے سے نکلنے کا سوچ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز: وہ کون سے عوامل ہیں جس کی وجہ سے لوگ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، ان حالات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ احسان وزیر: ظاہر ہے کوئی بھی شخص اپنے علاقے، آبائی گھر اور کاروبار کو اپنی مرضی اور آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا، لیکن جب انسان مجبور ہوجائے اور اس کی عزت کا معاملہ آجائے تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ الغرض ان حالات کی ذمہ داری حکومت اور طالبان دونوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے علاقے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ آپ خود سوچیں، جب آپ محنت مزدوری اور کاروبار کر کے اپنے خون پسینے سے کچھ کمائیں اور پھر کوئی روزانہ کے حساب سے بزور طاقت اپنا حصہ اور ناجائز بھتہ مانگ کر تنگ کرے تو آپ وہ علاقہ نہیں چھوڑیں گے تو اور کیا کریں گے۔؟ میرے ایک قریبی رشتہ دار کا بڑے ٹرکوں کا اچھا خاصا کاروبار چل رہا تھا۔ طالبان اس سے بھتہ مانگتے تھے جبکہ وہ طالبان کو پیسے، چندہ یا بھتہ، یا آپ جو بھی کہیں، دینے سے انکاری تھا۔ فقط اسی جرم میں ایک دن اسے اغوا کر لیا گیا اور اغوا کے اگلے روز ہی میرانشاہ بازار کے باہر اس کی سرکٹی لاش پھینک دی گئی۔ اسکے ساتھ ایک رقعہ پڑا تھا جس پر لکھا تھا کہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والوں کا یہی انجام ہو گا۔ یقین جانئے میرے رشتے دار نے اپنے خون پسینے اور محنت کی کمائی میں سے طالبان کو بھتہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور بس، جبکہ ان وحشی اور ظالم درندوں نے نہ صرف اسے ذبح کر کے قتل کر دیا بلکہ اسے امریکی ایجنٹ بھی قرار دے دیا۔ بتائیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اصل امریکی ایجنٹ تو یہی وحشی طالبان ہیں، کہ جو امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ وہاں سے ہجرت نہ کریں تو کیا کریں۔ اسلام ٹائمز:آپ نے مسائل اور مشکلات کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور طالبان پر ڈال دی، کیا وزیرستان کے عوام کا ان مشکلات میں کوئی کردار نہیں؟ جس طرح باجوڑ ایجنسی کے سالارزئی قبیلے اور شمالی وزیرستان سے متصل کرم ایجنسی کے طوری قبیلے نے اپنے اپنے علاقوں میں طالبان کو پناہ دینے سے انکار کیا۔ اگر شمالی وزیرستان کے لوگ بھی ایسا کرتے تو کیا مسائل کم نہیں ہو سکتے تھے؟ احسان وزیر: ہاں آپ کی یہ بات درست ہے کہ حالات کی خرابی اور مشکلات و مسائل میں جہاں حکومت اور طالبان کا کردار ہے، تو ساتھ ہی وزیرستان کے عوام کو بھی بریٔ ذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں آپ وزیرستان کے عوام کو تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: 1۔ عوام کا ایک گروہ، جس نے پیسے اور دولت کے حصول کے لئے طالبان اور غیرملکی عرب، ازبک و چیچن جنگجوؤں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ یہاں تک کہ ان جنگجوؤں سے رشتہ داریاں تک کر ڈالیں۔ 2۔ دوسرا گروہ، جس نے اسلام اور جہاد کی محبت میں طالبان کو پناہ دے کر ان کی حمایت کی اور انہیں اصل حقیقت یا درپردہ عوامل کا کوئی علم نہ تھا، جبکہ 3۔ تیسرا گروہ، جو طالبان کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں، لیکن تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے خاموش رہے۔ میرا شمار اسی آخری گروہ میں ہے۔ اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں حکومت کے حامی حافظ گل بہادر و حقانی گروپ کے طالبان کا کنٹرول ہے۔ تو کیا طالبان کے یہ گروپس بھی عوام کو تنگ کرتے ہیں اور علاقے کی مشکلات میں انکا بھی کوئی کردار ہے۔؟ احسان وزیر: وزیرستان کے عوام کی مشکلات کے ذمہ دار دونوں قسم کے طالبان ہیں۔ چاہے حکومت کے حامی طالبان ہوں یا حکومت مخالف، میں نے پہلے سوال کے جواب میں اپنے جس رشتہ دار کا طالبان کے ہاتھوں ذبح ہونے کا ذکر کیا وہ حکومت کے حامی طالبان ہی کا کارنامہ تھا، کیونکہ بعد میں طالبان کے اسی گروپ میں کام کرنے والے ہمارے قبیلے ہی کے ایک فرد کی زبانی ہمیں معلوم ہوا۔ تاہم ہم بھی قبائل ہیں، قبائل وقت آنے پر اپنے خون کا بدلہ ضرور لیتے ہیں، چنانچہ ہم اس بہیمانہ قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اس کے علاوہ اگر شمالی وزیرستان میں حکومت کے حامی طالبان ہیں تو پھر کئی بار میرانشاہ، رزمک اور دیگر علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے کیوں ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ جس میں درجنوں اہلکار قتل یا اغوا ہوئے۔ چنانچہ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ علاقے کی بربادی میں جہاں حکومت مخالف طالبان کا کردار ہے، اس سے کہیں زیادہ حکومتی طالبان اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے گذشتہ سوال کے جواب میں غیرملکیوں کا ذکر کیا، ان کا کیا کام ہے وزیرستان میں، یہ اپنے آبائی علاقوں اور اپنے ممالک میں واپس کیوں نہیں جاتے۔؟ احسان وزیر: دراصل یہ لوگ، بالخصوص ازبک یہاں ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے لوگوں کو دہشت گردی اور خودکش حملے کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارے وزیرستان کے چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو یہ مختلف حیلوں بہانوں اور جہاد اور جنت جانے کے لالچ میں تربیت دیتے ہیں۔ ٹریننگ کے دوران چھوٹے بچوں کے سامنے عام واسکٹ یا جیکٹ پہن کر ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ تو بچے کہتے ہیں کہ یہ واسکٹ یا جیکٹ ہے۔ (مقامی لوگ اسے واسکٹ کہتے ہیں)، پھر ان کے سامنے خودکش جیکٹ پہن کر دوبارہ پوچھتے ہیں کہ اس جیکٹ اور اس پہلے والے جیکٹ میں کیا فرق ہے۔ تو بچے معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں۔ اس پر انہیں موقع مل جاتا ہے اور وہ بچوں سے کہتے ہیں کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلا یا عام جیکٹ پہننے سے کچھ نہیں ہوتا جبکہ دوسرا جیکٹ پہننے اور جیکٹ میں موجود بٹن دبانے سے انسان ڈائریکٹ جنت میں چلا جاتا ہے۔ پھر انہیں قرآنی آیات، احادیث کو اپنی مرضی کی تفسیر کرنے کے علاوہ اس سے قبل خودکش حملہ کر کے مرنے والے بچوں اور جوانوں کے جنت میں جانے کے فرضی قصے سنائے جاتے ہیں۔ وزیرستان میں خودکش حملہ آور افراد کی فیکٹریاں ہیں۔ ان ہی غیر ملکی عرب اور ازبک جنگجوؤں کے گھروں میں ان کے ساتھ دن رات نیم برہنہ لباس یا سکرٹس میں ملبوس غیر ملکی خواتین موجود ہوتی ہیں، جبکہ ان کے گھروں اور ٹریننگ کیمپس میں اکثر نشہ آور ادویات کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ نہ جانے یہ کیسا جہاد اور اسلام ہے، کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ اسلام ٹائمز:شمالی وزیرستان میں بغیر پائلٹ کے امریکی ڈرون حملے ہوتے ہیں، کیا ان میں واقعی دہشت گرد مارے جاتے ہیں یا عام لوگ جاں بحق ہوتے ہیں، اس سلسلے میں آپ کا کیا مشاہدہ ہے۔؟ احسان وزیر: ان ڈروں حملوں میں بہت کم دہشت گرد مارے جاتے ہیں، اکثر عام قبائلی افرد حتٰی کہ گھر میں موجود خواتین اور بچے تک مارے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اکثر ڈرون حملے علاقے میں موجود اپنے مقامی مخبروں کی اطلاع پر کرتے ہیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ قبائل کی آپس میں کئی صدیوں سے دشمنیاں چلی آ رہی ہیں۔ چنانچہ جو کمزور قبائل اپنے مخالفین یا دشمنوں سے اب تک انتقام لینے میں کامیاب نہیں ہوئے، ڈرون کی شکل میں ان کے لئے مناسب موقع ہاتھ آ گیا ہے اور یوں اپنے مخالف قبیلے کے گھر کو القاعدہ و طالبان کے اڈے کے طور پر متعاف کرا کے ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز:احسان وزیر، اپنا وقت دینے کا بہت شکریہ! آپ کی وساطت سے بہت سے حقائق دنیا کے مختلف ملکوں کے عوام تک پہنچیں گے۔ آپ کی کوئی خواہش یا پیغام ہو تو آپ اسلام ٹائمز کی وساطت سے پہنچا سکتے ہیں۔ احسان وزیر: شکریہ تو آپ اور آپ کے ادارے کا کہ جس نے میری زبانی شمالی وزیرستان کے قبائل کی درد بھری روداد سنی، لیکن ایک التجا کہ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے وعدے کے مطابق میرا نام اور شناخت ظاہر نہ کرنا۔ باقی اب میری ایک ہی خواہش ہے کہ کاش وزیرستان کے وزیر، محسود اور داوڑ قبائل نے بھی سالارزئی اور طوری قبیلے کی طرح طالبان کو پناہ دینے سے انکار کیا ہوتا، تو آج وزیرستان بھی امن کا گہواراہ ہوتا۔