اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

17 جولائی 2010

7:30:00 PM
186991

جان بولٹن کا اعتراف:

بیشتر ممالک احمدی نژاد کے حامی تھے

اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق نمائندے جان بولٹن نے فاکس نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ این پی ٹی نظر ثانی کانفرنس میں 192 ممالک نے شرکت کی ہے اور بیشتر ممالک کے نمائندے احمدی نژاد کے خطاب کے دوران ہاؤس میں موجود تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب احمدی نژاد کے حامی تھے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق جان بولٹن نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: بہت دلچسپ بات ہے کہ احمدی نژاد جیسے انسان جو ہالوکاسٹ کے منکر ہیں اور ایسی حکومت کے صدر ہیں جس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے بڑی آسانی سے اقوام متحدہ میں آتے ہیں اور این پی ٹی کے ارکان نہ صرف محترمانہ انداز سے بلکہ نہایت دوستانہ انداز سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انھوں نے دعوی کیا کہ "تا ہم یہ احمدی نژاد کی روش و منش کا نتیجہ نہیں بلکہ قصور اقوام متحدہ کیا ہے اور خامیاں اقوام متحدہ کی کارکردگی میں ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں اقوام کی برابری پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں تمام ممالک برابر ہیں اور بالفاظ دیگر حاکمیت کے حوالے سے ان میں برابری اور مساوات قائم ہے اور اخلاقی برابری کی وجہ سے کسی ملک کو مستثنی قرار نہیں دیا جاسکتا ""اگر چہ امریکہ اور اسرائیل کسی حد تک مستثنی ہیں"" اور یہی اقوام متحدہ کی روش ہے۔ فاکس نیوز کے نمائندے نے پوچھا: احمدی نژاد واحد سربراہ مملکت ہیں جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی ہے؛ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟بولٹن نے کہا: یہ واقعہ بہت غیر معمولی واقعہ ہے۔ جب ہم امریکہ میں احمدی نژاد کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارا خیال ہوتا ہے کہ ان کی باتیں کسی کے خیالات کو تبدیل نہیں کرتیں لیکن اگر منصفانہ بات کرنا چاہیں تو ان کا لب و لہجہ توقع سے زیادہ تند و تیز تھا اور وہ ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ نمائندے نے پوچھا: چینی اور روسی وفود ہاؤس میں بیٹھے رہے اور احمدی نژاد کی تقریر سنتے رہے؛ کیا ان کے اس رویئے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کے خلاف ہیں؟بولٹن نے کہا: ایران پابندیوں کے مسودے کے متن سے بخوبی آگاہ ہے کیونکہ روس اور چین انہیں پوری خبریں پہنچارہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ احمدی نژاد کی تقریر کا ایک دلچسپ پہلو ان کی خوداعتماری اور اطمینان تھا۔ انہیں معلوم ہے کہ پابندیوں کا زور بالکل ٹوٹ گیا ہے اور اس کا آخری نتیجہ ایران پر دباؤ میں قابل ذکر اضافہ نہیں کر سکے گا۔ بولٹن نے کہا: میرے خیال میں وہ بہت اچھا محسوس کررہے تھے!!!۔نمائندے نے پوچھا: اگر احمدی نژاد واقعی روس اور چین کی حمایت سے مطمئن ہیں تو وہ نیویارک کانفرنس میں کس لئے حاضر ہوئے؟بولٹن نے کہا: میرے خیال میں وہ دوسرے ممالک کی حمایت حاصل کرنے نیویارک آئے تھے۔ وہ دیگر ممالک سے کہنا چاہتے ہیں کہ "ان کی رائے ایران کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے" اور میرا خیال ہے کہ احمدی نژاد نے یہ تقریر اپنے لئے بھی اور اپنی پالیسیوں کے لئے مثبت قرار دی ہے۔ نمائندے نے پوچھا: ایران کے مد مقابل ہماری موجودہ حکمت عملی کیا ہے؟بولٹن نے کہا: ایران کے سلسلے میں ہماری کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عالمی رائے عامہ کو ایران کے خلاف اقدام کرنے پر آمادہ کریں۔ اب تک ایران کو تنہا کرنے کے لئے تین بار پابندیاں لگائی گئی ہیں؛ گوکہ پابندیاں بھی مؤثر ہیں ہونگی۔ آخر کار شاید امریکہ دنیا کو ایران کے خلاف اٹھانے میں کامیاب ہوجائے لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایران ایٹمی توانائی کے میدان میں آخری نقطے کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے اسی بنا پر میں کہتا ہوں کہ اوباما انتظامیہ کی اصل پالیسی "جوہری ایران کو تسلیم" کرنے پر مبنی ہے اور انہیں امید ہے کہ ایران کو قابو کردیں گے!نمائندے نے پوچھا: لیکن ایران کے خلاف ہلیری کلنٹن کا لب و لہجہ ہمیشہ سے زیادہ تلخ اور تند و تیز تھا، کیا ان کا خیال ہے کہ ایران پر پابندیاں مؤثر ہونگی؟بولٹن نے کہا: تند و تیز باتیں کرنا در حقیقت عمل کے میدان میں لاتعلقی کو ڈھانپنے کا وسیلہ ہے۔ کسی کو بھی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ تند و تیز باتیں مؤثر اور کارساز ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ احمدی نژاد پر ان باتوں کا اثر نہیں ہوتا اور جو چیز ان پر نظر انداز ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ایٹمی پروگرام کو روک دیا جائے ورنہ خالی خولی باتیں کرنی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نمائندے نے پوچھا: اگر روسی اور چینی وفود بھی ہاؤس سے واک آؤٹ کرتے تو ان کی طرف سے پابندیوں کی حمایت کے حوالے سے امید رکھی جاسکتی تھی کیا آپ کے خیال میں روس اور چین کی حمایت کے بغیر ایران پر نئی پابندیوں کا عمل بیہودہ اور مہمل نہیں ہوگا؟بولٹن نے کہا: ایران بھی اس مسئلے سے واقف ہے اسی وجہ سے ہلیری کلنٹن نے اپنی تقریر کے دوران کہا: ہمیں پابندیاں لگانے کے سلسلے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے چنانچہ این پی ٹی کی خلاف ورزی کے لئے خودکار پابندیوں کا نظام وضع ہونا چاہئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خودکار سزاؤں کا نظام پوری تاریخ میں بیکار اور بیہودہ رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن ان باتوں کے ذریعے ایران کے مد مقابل اپنے آپ کو طاقتور اور سختگیر بتانا چاہتی تھیں لیکن یہ باتیں سیاسی لفاظی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں اور یہ سیاستدانی کے زمرے میں بھی نہیں آتیں۔ ......

/110