اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

23 جنوری 2025

8:36:23 PM
1525001

رہبر معظم نے غزہ جنگ بندی کے بارے میں کیا فرمایا؛

مقاومت کو سنت الہیہ کے مطابق کامیاب ہونا تھا سو کامیاب ہوگئی / مستقبل بتائے گا کہ کون کمزور ہو گیا ہے، امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: انہوں نے حتیٰ کہ جنگ کے بعد کے لئے ـ غزہ کا انتظام سنبھالنے کا منصوبہ تک بنایا! اس حد تک تو وہ مطمئن تھے۔ اب وہی ظالم اور سفاک صہیونی ریاست آئی ہے اور اسی حماس کے ساتھ ـ جسے وہ نابود کرنا چاہتی تھی ـ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی ہے اور اس کی شرائط کو قبول کر چکی ہے، اس لئے کہ جنگ بندی ممکن ہو سکے

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے تاجروں اور صنعتکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:

ایک بات غزہ کے بارے عرض کرتا چلوں۔ ہم نے کہا کہ مقاومت زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ [1] غژہ کامیاب ہؤا۔ مقاومت نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ رہے گی۔ جو کچھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ ایک افسانے سے مشابہت رکھا ہے۔ جقیقت یہ ہے کہ ان واقعات کو ہم تاریخ میں پڑھتے تو ان کے بارے شک و شبہے کا اظہار کرتے، اور یقین نہ کرتے کہ امریکہ جیسی ایک عظيم جنگی مشین صہیونی ریاست جیسی ایک ظالم اور خونخوار ریاست کی مدد کو آئے۔ یہ ریاست اس قدر سفاک اور بے رحم ہو کہ ایک سال اور چند مہینوں کے عرصے میں 15000 بچوں کے قتل سے دریغ نہ کرتی ہو، وہ بڑی طاقت اس قدر انسانی مفاہیم سے بے رخی اختیار کی ہوئی ہو کہ اس ریاست کو بنکر شکن بم فراہم کرے تاکہ وہ ان بموں سے ان بچوں کے گھروں نیز ان اسپتالوں پر ان بموں سے بمباری کرے جہاں وہ علاج کے لئے داخل ہیں، یہ سب اگر تاریخ میں ہوتا تو ہم یقینا باور نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ اس بیانیے میں کہیں کوئی سقم ہے۔ 

آج ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہؤا؛ یعنی امریکہ نے اپنے تمام تر وسائل صہیونی ریاست کو دے دیئے ـ اور اگر نہ دیتا تو صہیونی ریاست [جنگ کے] اسی پہلے ہی ہفتے میں ہی گھٹنے ٹیک دیتی ـ ان [صہیونیوں نے] ایک سال تین ماہ تک جتنا ممکن تھا جرائم کا ارتکاب کیا؛ اسپتال، مسجد، گرجا گھر، مکان، بازار، اجتماعات کے مراکز کو اور جہاں تک بھی ان کا ہاتھ پہنچا، [ہر چیز کو] نشانہ بنایا، کہاں؟ غزہ جیسے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں ، غزہ جیسے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں؛ وہ جہاں تک ممکن تھا، جرائم کے مرتکب ہوئے، اور ایک ہدف کا تعین بھی کیا، اس بدبخت اور روسیاہ ـ اس صہیونی ریاست کے سابق سرغنے [2] ـ نے کہا کہ "ہم حماس کو نابود کرنا چاہتے ہیں، اور اسے نابود ہونا چاہئے۔  اور انہوں نے حتیٰ کہ جنگ کے بعد کے لئے ـ غزہ کا انتظام سنبھالنے کا منصوبہ تک بنایا! اس حد تک تو وہ مطمئن تھے۔

اب وہی ظالم اور سفاک صہیونی ریاست آئی ہے اور اسی حماس کے ساتھ ـ جسے وہ نابود کرنا چاہتی تھی ـ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی ہے اور اس کی شرائط کو قبول کر چکی ہے، اس لئے کہ جنگ بندی ممکن ہو سکے؛ یعنی جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے۔

یہ وہی چیز ہے جو ہم کہتے ہیں کہ مقاومت زندہ ہے۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں:

"وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا؛ [3]

اور اگر کافر لوگ تم سے جنگ کرتے تو وہ پیٹھ پھراتے، پھر نہ ملتا انہیں کوئی دوست اور نہ مددگار"۔

اس کا مطلب یہی ہے۔ یہ صرف اُس زمانے کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ:

"سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا؛ [4]

یہی اللہ کی سنت (اور دستور) ہے جو پہلے سے جاری ہے اور تم ہرگز اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پاؤ گے"۔

یہ اللہ کی سنت ہے، یعنی انہیں فاتح و کامیاب ہونا چاہئے تھا اور فاتح و کامیاب ہوگئے۔ جہاں بھی اللہ کے اچھے بندے مقاومت و مزاحمت کریں گے، وہا فتح و نصرت حتمی ہے۔ اس وہمی اور خیال پرست شخص نے اعلان کیا تھا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے، اور مستقبل ثابت کرے کا کہ کون کمزور ہو گیا ہے۔

صدام بھی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ ایران کمزور ہوگیا اور اس نے حملہ شروع کیا۔ رونلڈ ریگن کا بھی وہی تھا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے اور اس نے صدام کی حکومت کو وہ امداد فراہم کر دی؛ وہ اور درجنوں دوسرے وہی اور (خیالی پلاؤ پکانے والے) واصل جہنم ہوئے اور اسلامی نظام حکومت کو روز بروز نشوونما ملی؛ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ تجربہ اس مرتبہ بھی دہرایا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ نو جنوری 1978 کے تاریخی واقعے کی سالگرہ کے موقع پر قمی عوام کے اجتماع سے خطاب، مورخہ 8 جنوری 2025ع‍

[2]۔ یہودی ریاست کا سابق وزیر اعظم ایہود باراک۔

[3]۔ سورہ فتح، آیت 22۔

[4]۔ سورہ فتح، آیت 23۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110