اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، 5
مئی 2024ع کو ـ جنگ کے تقریبا سات مہینے بعد ـ نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ جب تک
اصل مقصد حاصل نہ ہو اور حماس تباہ نہ ہوچکی ہو اور غزہ پر حماس کی حکمرانی کا
خاتمہ نہ ہؤا ہو، جنگ بندی نہیں ہوگی۔ یہ وہ وقت تک جب بالکل موجودہ صورت حال کی
طرح جنگ بندی کے لئے ماحول فراہم ہو چکا تھا!
غزہ جنگ بندی اور نیتن یاہو کی آرزوئے برباد
اس کے بعد 250 دن مزید گذرے اور طوفان الاقصیٰ
کے بعد مجموعی طور پر 471 دن بعد، سب جان گئے ـ شاید نیتن یاہو بھی جان گیا ـ کہ
اس کے وعدے سراب کے سوا کچھ نہ تھی۔ 19 جنوری کو جنگ بندی کے پہلے ہی لمحوں میں
صہیونی ریڈیو نے اعلان کیا غزہ کی پولیس غزہ کے مختلف علاقوں میں تعینات ہو رہی ہے
اور حماس کو غزہ کا ایک انچ بھی نہیں کھونا پڑا ہے اور حماس کی فورسز اپنی حکمرانی
جمانے میں مصروف ہیں۔
صہیونی وزیر اعظم نے بہت شیخیاں بگھاری تھیں،
اور کھوکھلے وعدے دیئے تھے لیکن وائرل ہونے والی تصویریں اور ویڈیوز سے معلوم ہوتا
ہے کہ حماس کی فورسز نے غزہ کا پورا کنٹرول سنبھالا ہے اور صہیونی فوجی اہداف جرائم
اور درندگیوں کے ارتکاب کے باوجود، حاصل نہیں ہو سکے ہیں اور نیتن یاہو کے سپنے چکناچور
ہو گئے ہیں۔
فلسطینی مقاومت کا مرکزِ ثقل، جس نے صہیونیوں کو بے بس کردیا ہے
عسکری اصطلاح میں "مرکزِ ثِقل" (Center Of
Gravity) کسی بھی فوج یا عسکری تنظیم میں پایا جاتا ہے، لیکن حماس اور
مقاومتی تنظیموں کا یہ مرکز درحقیقت عوامی حمایت ہے، جو انہیں قابل قدر تزویراتی
گہرائی عطا کرتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس عظیم افرادی سرمایہ ہے
جو اس کی افرادی توانائی کو مسلسل تقویت پہنچاتا ہے۔ صہیونی اس حقیقت کو جانتے ہیں
اسی لئے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ عوام کو مقاومتی تنظیموں سے بدظن کر
دیں۔ اور ہاں! یہ بھی درست ہے کہ وہ پوری غزہ پٹی کو "تحریک مقاومت" کی
شکل ميں دیکھتے ہیں۔
مقاومت و مزاحمت پر یقین کامل اور باصلاحیت
قیادت مقاومت کو زندہ رکھتی ہے۔
صہیونی دشمن سمجھتا تھا کہ اس وحشیانہ جنگ کے
بعد عوام حماس کو چھوڑ جائیں گے اور اس کو جنگ کا ذمہ دار قرار دیں گے، لیکن
موجودہ صورت حال ان صہیونی اور امریکی اندازوں کو بھی باطل کر رہی ہے۔
کل لوگ بھی میدان میں آئے اور مقاومت کے مجاہدین
کو گلے ملے اور اور "ہم سب حماس ہیں" کے نعرے لگائے۔
صہیونی از مرکز ثقل کو اسرائیل کے لئے سب سے بڑا
خطرہ سمجھتے ہیں۔
مجاہدین کا فوجی مارچ صہیونی وزیر اعظم کے منہ
پر طمانچہ
نیتن یاہو کا سب سے اہم منصوبہ القسام بریگیڈز
کا کام تمام کرنا تھا، لیکن جنگ بندی کے بعد دیکھا گیا کہ القسام فورسز لوگوں کے
درمیان حاضر ہوئے، لوگوں نے ان کا خیر مقدم کیا اور انہوں نے رفح اور جنوبی غزہ
میں فوج پریڈ کا اہتمام کیا۔
اس پریڈ کی صہیونی حلقوں اور ذرائع میں بڑی
عکاسی ہوئی اور یہودی صحافی اور i24
چینل کے تجزیہ کار "گائے بیگور" نے کہا: جنگ بندی کے
فورا بعد حماس کی پولیس اور القسام بریگیڈز کی غزہ میں تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ
حماس اپنی تمام تر چیزوں کے ساتھ غزہ میں پلٹ آئی ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ غزہ کے
اطراف کی نوآبادیوں پر پھر بھی حملے کا امکان ہے جو بہت خوفناک صورت حال کا سبب
بنے گا۔
فروری 2024ع میں نیتن یاہو نے فوج کو ـ ماہ
رمضان سے پہلے پہلے ـ رفح میں القسام بریگیڈز کا مکمل صفایا کرنے کے لئے منصوبہ
بنانے کی ہدایت کی تھی اور صہیونی فوج نے بھی کہا تھا کہ اس نے پہلے ہی اس مقصد کے
لئے منصوبہ بندی کی ہے، لیکن حالات مناسب ہونگے اور مصر کی مدد سے اس علاقے سے
لوگوں کا انخلا ہوگا تو کاروائی ہوگی۔ اس سے پہلے دسمبر میں بھی صہیونی فوج نے رفح میں حماس کے 2000 مجاہدین کے مارنے اور
15 کلومیٹر طویل سرنگوں کی تباہی کا دعوی کیا تھا لیکن آج رفح اور غزہ کے دوسرے
علاقوں میں وسیع پیمانے پر القسام کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب دعوے تھے
جو نیتن یاہو غزہ میں اپنی فوجی شکست کا بہانہ بنانے کے لئے بیان کرتا تھا۔
جنگ کے بعد کے پہلے دن کے لئے بھی نیتن یاہو کا
منصوبہ ناکام
دسمبر 2023ع میں نیتن یاہو نے جنگ بندی کی
تجويز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ کے اگلے دن حماس غزہ میں موجود نہیں
ہوگی!
صہیونی کابینہ نے جنگ کے مہینوں میں، حماس کو
منظر سے ہٹانے کے لئے، غزہ کا یکطرفہ انتظام چلانے کے کئی فارمولے آزما لئے، جن
میں براہ راست فوجی انتظام، قبائلی افراد پر مشتمل ٹیکنوکریٹ حکومت، عرب ممالک کی
مدد سے انتظامی ڈھانچے کا قیام وغیرہ وغیرہ، شامل تھے۔ لیکن جنگ بندی کے نفاذ کے
دن ہی معلوم ہؤا کہ غزہ کے حکومتی ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے کمانڈ سسٹم اور
غزہ میں القسام بریگیڈ کا کنٹرول مکمل استعدادِ کار (Efficiency) کے ساتھ، بحال ہو چکا ہے اور وہ پوری تندہی سے امن و امان بحال
رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔
گوکہ غاصب صہیونیوں نے
پولیس اور امدادی انتظام کے 723 افراد کو شہید کر دیا تھا لیکن حماس کے سیکورٹی
انتظام سے معلوم ہؤا کہ پولیس نے بھی اپنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھا تھا۔
ان حقائق نے صہیونی چینل i24 میں عربی امور کے تجزیہ کار گائے بیگور کو یہ کہنے پر
مجبور کر دیا کہ غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے اہداف حاصل نہیں ہوئے ہیں جہاں اس نے
کہا: "ہم نے 15 مہینوں سے جاری جنگ کے دوران کیا کیا؟ ہم نے بہت سارے گھروں
کو تباہ کر دیا، اسرائیل کے بہترین فوجی مارے گئے لیکن آخرکار ہؤا کیا؟ نتیجہ وہی
پرانا فارمولا ہی ہے یعنی حماس اتنی بڑی جنگ کے بعد، وزیر اعظم کے اعلانات کے
برعکس، نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ غزہ پر حکومت کرے گی، غزہ میں امداد کی ترسیل
حماس کے زیر انتظام تقسیم ہوگی اور القسام کے منصوبہ ساز واپس آکر اپنے کام میں
مصروف ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110