اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

20 جنوری 2025

11:35:23 AM
1524406

طوفان الاقصیٰ؛

تل ابیب کی کمزوری نمایاں ہو گئی / کیا صہیونی آبادکار مقبوضہ اراضی میں رہنا پسند کریں گے؟

صہیونی امور کے ایک تجزیہ کار نے قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدے کو صہیونیوں ریاست کی کمزوری قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام غزہ کے اطراف مقیم یہودی آبادکاروں اور ان کی واپسی کے عمل پر اثر انداز ہوگا کیونکہ صہیونی حکام نے ان کی واپسی کو حماس کے مکمل خاتمے سے مشروط کر دیا تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، فلسطینی خبر ایجنسی شہاب پریس نے صہیونی امور کے تجزیہ کار عزام ابو العدس کے حوالے سے لکھا:

- صہیونی ریاست اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر، مقبوضہ فلسطینی اراضی میں یہودی آبادکاروں کے درمیان شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

- میں صہیونی میڈیا کارکنوں کو چھان مارا مگر مجھے ایک بھی کارکن ایسا نہ ملا جو اس معاہدے کو خراج تحسین پیش کرے یا اس کو مثبت قدم قرار دے۔

- اس معاہدے کی وجہ سے صہیونی کابینہ، قابضین اور غاصبین اور صہیونیوں پر وسیع پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

- یہ اقدام غزہ کے اطراف مقیم یہودی آبادکاروں اور ان کی واپسی کے عمل پر اثر انداز ہوگا کیونکہ صہیونی حکام نے ان کی واپسی کو حماس کے مکمل خاتمے سے مشروط کر دیا تھا۔

- صہیونی ریاست مالی ترغیبات اور پرسکون زندگی کے وعدوں کے ذریعے صہیونیوں کے متروکہ نوآبادیوں میں واپس لانا چاہتی ہے لیکن وہ سات اکتوبر 2023 کے واقعے کو نہيں بھول پا رہے ہیں!

- داخلی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے استعفا دے کر صہیونی کابینہ کی اکثریت کا خاتمہ کر دیا اور نیتان یاہو کابینہ کو سقوط اور زوال کا سامنا ہے۔ اگر ہیزالیل اسموترچ (وزیر خزانہ) بھی کابینہ سے الگ ہوجائے اور اندرونی دباؤ کا سلسلہ بھی جاری رہے تو نیتن یاہو کابینہ کی تحلیل ہوجائے گی اور نیتن یاہو صہیونی ریاست کے سیاسی منظر سے ہٹ جائے گا۔

- جنگ نے مقبوضہ فلسطینی اراضی میں رہا‏ئش پذیر یہودی آبادکاروں پر انتہائی برے اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کے اثر طویل مدتی ہیں۔

- اگر اسموترچ استعفا نہ دے تو فوج میں حریدی یہودیوں کے بھرتی کے اوپر موجودہ اخلافات میں بہت زیادہ شدت آئے گی۔ یہ مسئلہ پہلے ہی بہت پیچیدہ ہو چکا ہے۔

- اس معاہدے نے اسرائیل کی کمزوری کو اس کے دشمنوں کے سامنے بے نقاب کر دیا اور یہ مسئلہ مستقبل میں یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی میں مؤثر ہوگا۔۔ اب دیکھا یہ ہے کہ کیا یہودی آبادکار اس سرزمین میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ یا نہیں بلکہ یہودی مستقبل میں بھی یہیں بسیرا کرکے رہیں گے؟ حالانکہ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ صہیونی ریاست اسرائیلیوں کی حفاظت و حمایت اور مطلق کامیابی کے حصول سے عاجز و بے بس ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق، اتوار (19 جنوری 2025ع‍) کو نیتن یاہو کابینہ کے دائیں بازو کے انتہاپسند وزیر داخلہ بن گویر اور اس کے دو انتہاپسند ساتھیوں نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے نیتن یاہو کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کے بعد ان ہی کے ہم عقیدہ انتہاپسند صہیونی وزیر ہیزالیل اسموترچ نے بھی کابینہ میں رہنے اور نیتن یاہو کی وزارت عظمی کی حمایت جاری رکھنے کو غزہ پر از سر نو جارحیت سے مشروط کر دیا۔

اس جنگ بندی کے معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے فورا بعد دھمکی دی کہ "اگر غزہ پر دوبارہ جنگ شروع نہ ہوئی، اور اسرائیل نے غزہ پر پورا قبضہ نہ کیا اور اس کا انتظام نہیں سنبھالا، تو میں نیتن یاہو کابینہ کو سرنگوں کروں گا۔

اس نے اپنی ہرزہ سرائی جاری رکھتے ہوئے کہ: ہمیں غزہ پر قبضہ کرنا پڑے گا اور وہاں ایک عبوری حکومت قائم کرنا پڑے گی، کیونکہ یہ حماس کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔

ادھر الجزیرہ اور المیادین نے رپورٹ دی ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد صہیونیوں کو اپنے قیدیوں کی فہرست فراہم نہیں ہوئی تو انھوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں پر فائرنگ کی جس نتیجے میں کئی فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ جبکہ جنگ بندی کے آغاز سے چند لمحے قبل تک بھی صہیونیوں نے فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جس کا جواب صرف یمن سے آیا اور یمنیوں نے مقبوضہ فلسطین میں اہم صہیونی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110