اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انقلاب یمن کے قائد اور انصاراللہ یمن کے سربراہ سید
عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اپنے ہفتہ وار خطاب میں خطے کے مختلف مسائل ـ منجملہ
غزہ میں جنگ بندی کے سمجھوتے ـ پر اظہار کیا اور ابتداء میں کہا: "غزہ میں
جنگ بندی کا سمجھوتہ اہم پیشرفت ہے"۔
انقلاب یمن کے
قائد اور انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کے خطاب کے اہم
نکات:
- اسرائیلی دشمن اور امریکہ
طویل عرصے تک المناک جرائے مرتکب ہونے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے سمجھوتے پر
مجبور ہوئے۔ غزہ پر اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے اہداف و مقاصد واضح تھے۔
- اسرائیلی دشمن نے امریکی
شراکت سے فلسطینی عوام کا صفایا کرنے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور 4050
مرتبہ "قتل عام" کے واقعات (Massacres) رقم کئے۔ تاہم غزہ نے اسی حال میں 15 مہینوں کے عرصے میں اپنے دو
رخ دنیا والوں کو دکھا دیئے: ایک رخ مظلومیت کا چہرہ تھا، جو مختلف النوع جرائم
اور مظالم برداشت کرنے کی بنا پر سامنے آیا اور دوسرا رخ بہادری اور پامردی کا رخ
تھا کہ انہوں نے دشمن کے تمام وسائل کے سامنے عدیم المثال استقامت کا ثبوت دیا۔
- غزہ کی مظلومیت یہ تھی
کہ اسرائیل نے امریکہ کی شرکت سے غزہ پر طویل مدتی جارحیت جاری رکھی، عربوں اور
مسلمانوں نے بے حسی اور بے رخی دکھائی، یہاں تک کہ بعض عرب حکومتوں نے اسرائیلی
دشمن کے حق میں، سازباز کی، اور یوں اس خطے کی مظلومیت میں اضافہ ہؤا۔
- غزہ میں اسرائیلی دشمن
کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور بہیمانہ جرائم دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے
انجام پائے؛ دنیا نے دیکھا کہ فلسطینی عوام جبری بھوک اور مسلط کردہ قحط کا شکار
ہوئے؛ دنیا نے دیکھا کہ اسرائیلی دشمن فلسطینیوں کے لئے اشیائے خورد و نوش کی ترسیل
میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہے، دنیا نے دیکھا کہ صہیونی دشمن نے ان جرائم کے ساتھ ساتھ
غزہ کے طبی ڈھانچوں کو تباہ کیا اور طبی خدمات کے مکمل خاتمے کی کوشش کی اور
اسپتالوں کو بنیادی فوجی اہداف (Tatgets) قرار دیا۔
- غزہ کی مظلومیت کا مسئلہ
بالکل آشکار اور ناقابل انکار ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم 15 مہینوں
کے اس عرصے میں غزہ کا دوسرا رخ فلسطینی عوام اور پیارے مجاہدین کی عدیم المثال
استقامت، صبر عظیم، پامردی اور احاد و یکجہتی سے عبارت ہے۔
- غزہ میں، دشوارترین حالت
میں اور انتہائی قلیل وسائل کے ساتھ، القسام بریگیڈز، القدس بریگیڈز اور دوسری تحریکوں
کے مجاہد بھائیوں کی پامردی بہت قابل توجہ ہے؛ یہاں تک کہ دشمن کو عظیم وسائل اور
وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس سہولیات کے باوجود، مقاومت کے خاتمے اور مجاہدین کا صفایا
کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
- دشمن نے ابتداء ہی سر
غزہ مقاومت کو گھیر لیا تھا اور مجاہدین کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن
اسے شکست ہوئی اور وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، حالانکہ اس کو امریکی
فوجی حمایت حاصل تھی۔
- فلسطینی مجاہدین نے ایمان،
عزم اور استقامت کی قوت، جانفشانی کے لئے اعلیٰ سطحی آمادگی، دلیرانہ کاروائیوں
اور مختلف حالات کے ساتھ ہم آہنگی کے بدولت، غزہ میں اسرائیلی اور امریکی دشمنوں
کو شکست دی۔ جب بھی صہیونیوں اور امریکیوں نے کسی خاص فوجی ٹیکٹک یا منصوبے کا سہارا
لیا، شکست سے دوچار ہوئے۔
- اسرائیلی دشمن نے شمالی
غزہ اور دوسرے علاقوں پر جارحانہ کاروائیوں کو کئی بار دہرایا، اور ہر بار علاقے
پر حاوی ہونے کا اعلان کیا لیکن بہت جلد نئی کاروائیاں سامنے آئیں جن میں ان کے افسران
اور جوانوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کو براہ راست جانی نقصانات سے دوچار کیا۔
ہم نے میدان میں
شاندار مناظر دیکھے
دشمن کے افسروں
اور جوانوں کے ساتھ صفر میٹر کے فاصلے سے لڑ پڑنے اور انہیں ہلاک کرنے کے مناظر
انتہائی شاندار تھے، یہ بہت بڑا سبق ہے، جو حاصل کردہ انتہائی اہم نتائج کی سطح پر
بہت اہمیت کا حامل ہے۔
- غزہ کی تصاویر اور ویڈیو
کلپس کو دیکھئے تو وہاں زندگی کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی، لیکن اس کے باوجود، فلسطینی
عوام کی استقامت، پامردی اور اتحاد و یکجہتی کو دیکھ سکتے ہیں۔
- دشمن ان جرائم کے ذریعے
غزہ کے عوام کی جبری نقل مکانی کے درپے تھا، لیکن غزہ کے عوام نے جم کر رہنے پر
اصرار کیا۔
- ہم حماس کے سیاسی موقف
کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اور حماس کے قائدین امریکہ مغربی دنیا اور عرب
حکومتوں کے دباؤ کے باوجود، اپنے سیاسی موقف پر استوار رہے، جو کہ سب کے لئے ایک
بڑا سبق ہے۔
- اسرائیلی ریاست فلسطینی
عوام کو کوچ کرانے، اور غزہ کے عوام کی جبری نقل مکانی میں بھی ناکام رہی۔
- فلسطین-اسرائیل
تنازعات کی تاریخ کے میں حالیہ پندرہ ماہ کے دور سے بہت اہم سبق سیکھا جا سکتا ہے
جو در حقیقت پوری امت مسلمہ کے ساتھ بھی مغرب اور صہیونیت کا ایک تنازعہ تھا۔
- اس عرصے میں فلسطینی مزاحمت
و استقامت کی سطح گذشتہ ادوار میں ہونے والی مزاحمت سے کہیں زيادہ تھی اور یہ عظیم
مزاحمت فلسطین کے مستقبل کے لئے بہت اہم نشانی ہے۔
- اس سطح کی پامردی اور
منصفانہ فلسطین کاز کی اس سطح کی پابندی نے فلسطینیوں کو مستقبل کی کامیابیوں اور
خدا کی طرف سے فتح و نصرت کے بہت قریب ہیں اور اسرائیل کی وقتی اور عارضی ریاست کی
نابودی کے حتمی نتیجے تک پہنچیں گے۔
- اسرائیلی اس دور میں
خوفزدہ تھے اس سے کہ شاید ان کے زوال اور شکست و ریخت کی گھڑی نہ پہنچی ہو اور ان
کا یہ خوف بہت آشکار تھا۔
- عدل و انصاف
اور اقوام کی حامی اور محافظ کہلوانے والی بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے فلسطینی
عوام کی کسی قسم کی حمایت نہیں کی۔
- اسرائیل نے اقوام متحدہ
تنظیم کی تضحیک کی اور اس کا مذاق اڑایا، اس کی توہین کی اور اس کے منشور کو پھاڑ
دیا اور جرائم پیشہ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے مقام پر کھڑے ہوکر اس کا تمسخر
اڑایا لیکن اسرائیلی دشمن کے خلاف کوئی اقدام عمل میں نہیں لایا گیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کم
از کم اس عظیم رسوائی سے پاک کر سکتا تھا جو اس نے صہیونی دشمن کو تسلیم کرکے، اور
رکنیت دے کر، اپنے نام ثبت کرائی تھی، اور اس کی رکنیت کو منسوخ کر سکتا تھا۔ انسانیت
کے اس دشمن کو یقینا اقوام متحدہ کی رکنیت سے محروم کرنا چاہئے۔
- [مبینہ] بین الاقوامی
برادری جن چیزوں کو "اطفال کے حقوق، حقوق نسوان اور حقوق انسان" کا نام
دیتی ہے، انہیں فلسطین کے سلسلے مین مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا اور اسرائیلی دشمن
کو جرم کے ارتکاب کی کھلی چھوٹ دی گئی اور اجازت دی گئی کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس
اور جرمنی سے ہتھیار، بم اور گولہ بارود وصول کرتا رہے۔ نہ تو بین الاقوامی برادری
نے اور نہی کسی اور نے اس فریاد کو کوئی توجہ نہیں دی جو پوری دنیا میں فلسطینی
عوام کی نسل کشی بند کرانے کے لئے اٹھی تھی۔
- امریکہ اور یورپ میں طلباء
اور اکیڈمکس کے مظاہروں کو درندگی، تذلیل اور تمام جائز حقوق کو پامال کرتے ہوئے،
کچل دیا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں طلباء کے
مظاہروں کو "یہودیت دشمنی" (Antisemitism) کے طور پر
متعارف کرایا گیا تاکہ انہیں آسانی سے کچلا جا سکے۔
- عرب ممالک نے
بے حسی کا ثبوت دیا حالانکہ عربوں کا گناہ دوسروں سے بڑا ہے۔ اگر عرب دشمن
پر سیاسی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لئے کم سے کم ضروری اقدامات کرتے اور
فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے اقدام کرتے تو دوسرے اسلامی ممالک بھی وسیع پیمانے
پر ان کا ساتھ دیتے۔
- بعض عرب ریاستوں کا موقف
صہیونیوں کے ساتھ تعاون پر مبنی تھا اور دشمن کو نسل کشی اور جرائم کی ترغیب دلاتا
رہا۔
سب سے عظیم
قربانی حزب اللہ نے دی
- یہ بھی ناقابل انکار
حقیقت ہے کہ فلسطینی مقاومت کے ساتھ ایک پشت پناہ محاذ بھی مختلف میدانوں میں
ابھرا۔
- پشت پناہ محاذوں
میں سب سے بڑی قربانی حزب اللہ لبنان نے دی۔ حزب اللہ کا محاذ انتہائی طاقتور اور
مؤثر رہا اور غزہ کے تئیں ان کی پشت پناہی وسیع پیمانے پر جنگ میں بدل گئی۔
- حزب اللہ لبنان نے وہ
کارنامہ سرانجام دیا کہ امت مسلمہ نے کسی محاذ پر سرانجام نہیں دیا تھا اور کسی
بھی جکومت یا جماعت نے حزب اللہ ـ بالخصوص شہید اسلام اور شہید انسانیت سید حس نصر
اللہ (رضوان اللہ علیہ) کی طرح جانفشانی نہیں کی۔
- عراق کی اسلامی مقاومت
نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں قابل قدر کردار ادا کیا۔
- جنگ غزہ کے دوسرے پہلو
بھی تھے جن میں ابلاغی اور تبلیغی پہلو بھی شامل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے طوفان
الاقصیٰ آپریشن کے خلاف تہمتوں سے بھرپور تشہیری مہم چلائی، وہ فلسطینی عوام، حماس
اور فلسطینی تحریکوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے۔
- طوفان الاقصیٰ کے خلاف تشہیری (پروپیگنڈہ) مہم کا مقصد اسرائیلی
دشمن کے لئے عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرنا اور اس کے جرم، ظلم، جارحیت اور بربریت
کا جواز پیش کرنا تھا، یہ تشہیری مہم اسرائیل کو مظلوموں بنا کر پیش کرنے کے لئے
تھی، لیکن وہ اس مہم میں ناکام رہے۔
یمنی محاذ دشمن کے لئے غیر متوقع طور پر نمودار
ہؤا
- یمنیوں نے دنیا
کو وَرْطَۂ حَیرت میں ڈال دیا۔
- کسی کو توقع
نہ تھی کہ یمنی موقف بحری کاروائیوں اور مقبوضہ فلسطین کے اندر تک دشمن کے ٹھکانوں
پر حملوں کے حوالے سے اس حد تک مؤثر اور نمایاں ہو سکتا ہے۔ غزہ کی حمایت کے لئے
ہماری فوجی کاروائیاں اعلیٰ سطح پر انجام پائیں اور ہم نے ان کاروائیوں میں ـ جو
اوپر کی سطوح تک جاری رہنا چاہتی تھیں ـ پوری کوشش اور محنت کی۔
- ہم نے بیلسٹک، کروز اور
ہائیرسانک میزائلوں اور ڈرون طیاروں اور جنگی کشتیوں کو بروئے کار لا کر 1255
کاروائیاں کیں۔ ہم نے غزہ کی پشت پناہی کے لئے کاروائیوں کو ان دشوار اقصادی حالات
اور مختلف قسم کی قلتوں کے باوجود انجام دیا جن کا ہمارے عزیز عوام کو سامنا ہے۔
- امریکہ نے اسرائیل کے
خلاف کسی بھی قسم کے حملے سے نمٹنے کے لئے اپنا طیارہ بردار جہاز سمندر میں تعینات
کیا اور بعض عرب ریاستوں نے اسرائیل کی
طرف داغے جانے والے میزائلوں کو مار گرانے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا!
- ہماری مسلح افواج کو
میزائل اور ڈرون حملوں کے آغاز پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دفاعی نظامات کے
عنوان سے مشکل کا سامنا تھا، چنانچہ فنی مشکلات کو خاص طور پر توجہ دی گئی۔
- ہم نے تکنیکی میدان میں اور آپریشنل ٹیکٹکس کی سطح پر اپنی صلاحیتوں
کو ترقی دی اور اللہ کے فضل سے اس مرحلے پر پہنچ گئے جہاں امریکی بحری بیڑے کے لئے
مزید کوئی کردار نہیں رہا، یہاں تک کہ ہماری صلاحیتوں کی ترقی کے نتیجے میں امریکی
جنگی بیڑوں کو سمندری حدود میں وسیع علاقوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کی طرف سے
ہمارے حملوں میں رکاوٹ ڈالنے کے عمل کو وسیع پیمانے پر بے اثر کیا گیا۔
- جعلی اسرائیلی ریاست
مقبوضہ فلسطین کی فضاؤں میں ہمارے بھیجے ہوئے ہتھیاروں کے مقابلے میں بے بس ہو چکی
تھی اور اس مسئلے کو مستند بھی کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی طرف
سے جنگ بندی کی خلاف ورزی پر ہماری گہری نظر ہے
- اگر جنگ بندی
کے سمجھوتے کے نافذ العمل ہونے سے قبل اسرائیلی دشمن حملوں میں شدت لائے اور قتل
عام کو جاری رکھے تو فلسطینی عوام کی حمایت مین ہماری کاروائیاں بھی جاری رہیں گی۔
- غزہ کی صورت حال کے بارے
میں یمن کا موقف فلسطینی تحریکوں کے موقف پر منحصر ہوگا۔
- ہم سمجھوتے کے نفاذ کے
مراحل پر نظر رکھیں گے، اور اگر اسرائیلی ریاست سمجھوتے کے نفاذ سے پسپائی اختیار
کرے اور قتل عام اور محاصرے کو جاری رکھے تو ہم فوری طور پر فلسطینی عوام کی فوجی حمایت
کے لئے تیار ہونگے۔
انقلاب یمن کے
قائد اور انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اپنے خطاب کے
آخر میں کہا: "فلسطینی عوام کی حمایت کا عمل، جاری و ساری ہے، اور ہم خدائے
متعال کی مدد سے، فلسطین کی زیادہ طاقتور اور زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے
اپنی فوجی صلاحیتوں کو مسلسل ترقی دیں گے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت
حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110