اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، بین الاقوامی امور کے ایک ماہر "اشکان مُمبَینِی" نے
فارس نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:
غزہ اور صہیونی ریاست کے
درمیان جنگ بندی کا سمجھوتہ صہیونی ریاست کی شکست اور حماس، حزب اللہ اور محور
مقاومت (محاذ مزاحمت) کی فتح ہے۔
نیتن یاہو ایک ایسے گروہ
کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہؤا جسے وہ نابود کرنے کا دعوی کرتا تھا اور یہ جرائم پیشہ
صہیونی ریاست کے لئے رسوا کن شکست ہے۔
صہیونی دشمن نے 15 مہینوں
تک نسل کشی جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کیا اور
لاکھوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیا اور اب اس جعلی ریاست کو خفت آمیز شکست
ہوئی ہے اور مقاومت نیز فلسطین کے ثابت قدم اور بہادر عوام کو فتح نصیب ہوئی ہے۔
یہ وہ فتح ہے جو تاریخ میں
لکھی جائے گی اور ایسی شکست ہے جو "اسرائیل" کو روز بروز زوال اور نابودی
کی طرف لے جائے گی۔
اس سمجھوتے سے یہ حقیقت عیاں
ہوئی ہے کہ مقاومت ہی واحد ہی مؤثر راہ حل ہے، فتح صرف حق کے لئے ہے، اور باطل
نابود ہو جائے گا۔
معرکۂ طوفان الاقصی ایک عظیم
کارنامہ ہے، سات اکتوبر اور طوفان الاقصی کا کارنامہ تمام تر سختیوں، جان شفانیوں
اور غزہ کے عوام کی ہزاروں شہادتوں، اور متعدد کمانڈروں اور مجاہدین کی شہادت کو
باوجود، آج نتیجہ خیز ثابت ہؤا ہے۔ اور ثابت ہؤا کہ کوئی بھی طاقت فلسطینیوں کو ان
کی آبائی سرزمین سے نقل مکانی پر مجبور نہیں کر سکتی اور ثابت کیا کہ صبر و
استقامت سے ہی اللہ کا یہ وعدہ عملی جامہ پہنتا ہے کہ ظالم کی قسمت میں نابودی کے
سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
جعلی ریاست نے 15 مہینوں
اور 19 دنوں کے اس عرصے میں حماس اور فلسطینی مقاومت نیز حزب اللہ لبنان کی نابودی
اور صہیونی قیدیوں کی رہائی کا ہدف حاصل کرنے کی غرض سے، تمام تر جنگی وسائل اور
ہتھیار استعمال کئے اور امریکہ اور تمام تر یورپی ممالک نے اس سرطانی پھوڑے کی حمایت
کی۔ اور پورا کا پورا محاذ حق کے مد مقابل آ کھڑا ہؤا۔
امریکہ نے اس عرصے میں قتل
عام اور جرائم کے ارتکاب میں صہیونی ریاست کی ہمہ جہت حمایت کی اور اس کو ہر قسم
کے مالی اور فوجی امداد فراہم کی۔ یورپ نے بھی اسی انداز سے اس کی فوجی اور مالی
مدد کی، بیشتر اسلامی اور عرب ممالک نے یا خاموشی اختیار کی یا چوری چپکے صہیونیوں
کی امداد کرتے رہے، اور ظاہری طور پر صرف کچھ کھوکھلے سے بیانات پر اکتفا کیا؛ اور
امت بھی ان جرائم کا تماشا دیکھتی رہی!
لیکن اس کے باوجود، یہ
تمام ممالک فلسطین اور لبنان کی مقاومت پر فتح نہیں پا سکے۔ انھوں نے مقاومت کے
کمانڈروں اور قائدین تک کو شہاید کیا لیکن مقاومت کا تناور درخت روز بروز زیادہ سے
زیادہ مضبوط تر اور ثمرآورتر ہو گیا، اور آج فلسطین، غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام
فتح اور آزادی کی شیرینی کو محسوس کریں گے۔
صہیونیوں نے غزہ پر حملہ
کرتے وقت جن اہداف کا اعلان کیا تھا، ان کے حصول میں پوری طرح ناکام ہو گئے۔ جعلی
ریاست غزہ میں حماس کی نابودی، لبنان میں حزب اللہ کی نابودی اور خطے میں محور
مقاومت کی نابودی کا ہدف حاصل کرنے میں شکست کھا گئی۔ یہ شکست تاریخی اور رسوا کن
تھی۔
آج امریکہ اور اس کے مغربی
کاسہ لیس ممالک، نیز غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی تمام تر
عسکری اور مالی طاقت کے باوجود غزہ اور لبنان میں شکست کھا گئے ہیں۔ تقریبا 16 مہینوں
کی اس پوری جنگ کے تمام مراحل میں شکست ہوئی؛ اور آج دوٹوک انداز سے معلوم ہؤا ہے
کہ یہ تمام ایام صہیونی ریاست کی مسلسل شکستوں کے ایام تھے۔
معرکۂ طوفان الاقصی غاصب ریاست
کی معلوماتی اور سیاسی شکست سے شروع ہؤا؛ اور اس کے بعد کے مراحل میں بھی جعلی ریاست
کو اسی طرح کی مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور شکستوں اور ناکامیوں کا یہ
سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج صہیونی ریاست، امریکہ اور ان کے حامیوں اور کٹھ پتلیوں
کی شکست عینی اور عملی صورت میں دنیا والوں کی نظروں کے سامنے ابھر کر سامنے آگئی؛
اور دنیا والوں نے دیکھا کہ فلسطین فاتح بن گیا اور اس کے دشمن ناکام اور رسوا ہو
گئے۔
آخر میں یہی کہنا چاہئے کہ
صہیونیوں نے جنگ بندی کا سمجھوتہ نہیں بلکہ شکست کا معاہدہ اس لئے قبول کیا کہ
غاصب ریاست مقاومت اور فلسطین کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110