اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

8 جنوری 2025

9:39:37 AM
1521173

یوم شہادت امام النقیؑ کے موقع پر مختصر خطاب؛

 تشیع کو امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری کے زمانے میں فروغ ملا، امام خامنہ ای + ویڈیو

امام خامنہ ای نے فرمایا: "ہماری تاریخ نویسی میں، ہماری کتاب نویسی میں، حتیٰ ہماری مجلسوں میں ان تین بزرگواروں [امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری (علیہم السلام) کو بہت کم یاد کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں کم تحقیق ہوتی ہے اور کم کام ہوتا ہے۔ بہت بجا ہے کہ کچھ لوگ ان تین بزرگواروں کی زندگی کے سلسلے میں کام کریں، تحقیق کریں اور تالیف و تصنیف کریں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) کے یوم شہادت کے سلسلے میں منعقدہ مجلس عزا کے موقع پر مختصر سا خطاب کیا جو حسب ذیل ہے:

بسم الله الرّحمن الرّحیم

کسی بھی دور میں ـ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر آخر تک ـ پوری دنیائے اسلام میں، [مکتب تشیّع کو ـ کیفیت کے لحاظ سے بھی اور کمیت کے لحاظ سے بھی، جتنا فروغ حضرت محمد تقی الجواد، حضرت علی النقی الہادی اور حضرت حسن العسکری (علیہم السلام) کے زمانے میں ملا، اتنا کسی زمانے میں نہیں ملا۔ تشیّع کا یہ فروغ ان تین بزرگوار ائمہ (علیہم السلام) کا کام تھا۔ بغداد امام جواد اور امام ہادی (علیہما السلام) کے دور میں تشیّع کا مرکز بنا ہؤا تھا۔

فضل بن شاذان کہتے ہیں: میں پہلے بغداد چلا گیا، مسجد کا اندرونی حصہ شیعہ محدثین سے بھرا ہؤا تھا جو حدیث کے حلقے تشکیل دیئے ہوئے تھے اور حدیث نقل کر رہے تھے؛ یعنی صورت حال کچھ ایسی تھی؛ بغداد کی حالت یہ تھی، کوفہ کی حالت بھی یہی تھی؛ ان بزرگواروں نے بہت زیادہ محنت کی۔

تشیّع کے اسی فروغ کی وجہ سے ہی ضرورت اس امر کی تھی کہ تشیّع کے معارف و تعلیمات ان عظیم ہستیوں کی زبان سے فروغ پائیں۔ یہ کام حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) نے بھی انجام دیا؛ زیارت جامعہ [کبیرہ] کے ذریعے بھی، عید غدیر کے لئے مختص زیارت امیرالمؤمنینؑ کے ذریعے بھی؛ دیکھئے اس [مؤخرالذکر] زیارت میں ـ جو امیرالمؤمنینؑ کے فضائل پر مشتمل ہے، ـ کتنی آیات کریمہ سے استفادہ کیا گیا ہے! یہ ذہنی یک سوئی، موضوع پر یہ عبور ومہارت، حقائق کا اس انداز سے اظہار، امام ہادی (علیہ السلام) کے سوا، امام معصوم کے سوا، کسی کے بس کی بات نہیں ہے؛ یہ کام ان بزرگواروں نے سرانجام دیئے۔ اگر امام ہادی (علیہ السلام) کی کوشش نہ ہوتی، تو ہم آج زیارت جامعہ سے فیض یاب نہ ہوتے، اور اس دعا میں مندرجہ منفرد تعلیمات و معارف شیعیان اہل بیت(ع) کے پاس نہ ہوتے۔

کچھ لوگوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے لیکن حدیث کا مطالعہ نہیں کر سکے ہیں، اور ان احادیث میں ائمہ (علیہم السلام) کے کلمات سے واقف نہیں ہیں، ان لوگوں کی کام میں نقص کا سبب یہی ہے۔ ائمہ (علیہم السلام) کی تاریخ کو بھی دوسرے مصادر و منابع سے زیادہ ان احادیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں، ان کی نقل مکانیوں میں، ان کی وصایت اور جانشینی کے اعلان میں، کیا کچھ ہؤا ہے۔ امام ہادی (علیہ السلام) کی وصایت کے اعلان کا قصہ عجیب ہے، جو شاید آپ نے الکافی میں پڑھ لیا ہو اور وہ یوں کہ احمد بن محمد بن عیسیٰ کا اس میں کردار تھا، انھوں نے اس میں کام کیا تھا اور نوبت مباہلہ کی آتی تھی اور اس طرح کے مسائل، یہ بہت اہم ہے۔

ہماری تاریخ نویسی میں، ہماری کتاب نویسی میں، حتیٰ ہماری مجلسوں میں ان تین بزرگواروں کو بہت کم یاد کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں کم تحقیق ہوتی ہے اور کم کام ہوتا ہے۔ بہت بجا ہے کہ کچھ لوگ ان تین بزرگواروں کی زندگی کے سلسلے میں کام کریں، تحقیق کریں اور تالیف و تصنیف کریں۔ البتہ حال ہی میں مجھے ایک کتاب دیکھنے کو ملی جو ناول کے طرز پر امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) کے بارے میں لکھی گئی ہے اور اس میں امام جواد (علیہ السلام) کے معجزے کی تشریح کی گئی ہے؛ [یعنی] کام ہؤا ہے مگر بہت کم ہے؛ اس سے کہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے، فنکارانہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

110