اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا - کے مطابق مبینہ
نامعلوم عناصر کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور سرکاری اہلکاروں کے قافلے پر فائرنگ
کا واقعہ پاراچنار کے پہلے سے ہی دہشت گردی کا شکار علاقے میں امن و امان کی نا
گفتہ بہ حالت کو ظاہر کررہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں یہاں خونریز تنازعات ہوئے ہیں
اور اہل تشیع عوام پر تکفیری قوتوں کے دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے ہیں۔
دریں اثنا، صدر آصف علی زرداری اور پاکستانی وزیر
اعظم شہباز شریف نے کسی دوٹوک اقدام کا اعلان کرنے کے بجائے پاراچنار کے راستے میں
ہونے والے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور پاراچنار میں جنگ بندی کے معاہدے کو توڑنے
کے لیے سیکورٹی مخالف تحریکوں اور تخریب کاروں کو خبردار کیا ہے۔
صدر پاکستان نے پاراچنار میں عدم تحفظ کی وجوہات
اور پرامن سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف فوری کارروائی کا
حکم دیا ہے، لیکن چونکہ انتظامی امور وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ان کی یہ ہدایت
صرف علامتی ہیں اور نافذ العمل نہیں ہیں۔
پاراچنار جنگ بندی معاہدے کے بعد، سرکاری
اہلکاروں کے حفاظتی دستوں کی مدد سے امدادی کھیپوں کو پاراچنار شہر پہنچانا تھا
مگر، بگن کے قریب شدید فائرنگ کے نتیجے میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور کئی سیکورٹی
فورسز کے اہلکار زخمی ہوگئے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ ـ جو انتظامی اختیارات بھی
رکھتے ہیں ـ نے بھی امن اور جنگ بندی کی فضا کو تباہ کرنے کے لئے امن دشمن عناصر
کے اقدامات کی مذمت کی ہے اور تشویش کا اظہار کیا ہے!
خیبرپختونخوا کے وزیراعلی، جنہیں پاراچنار شہر میں
سیکورٹی کے قیام کے لئے اس صوبے کا اعلیٰ ترین انتظامی عہدیدار سمجھا جاتا ہے اور
موجودہ صورت حال کی خرابی کے ملزم ہیں، نے بھی اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے
کو کبھی ختم نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر اعلی نے اعلی سرکاری عہدیداروں پر دہشت گردانہ
حملہ کرنے والوں کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی
کا اعلان نہیں کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع
پاراچنار کے علاقے میں 2 ماہ سے جاری بدامنی کی شدت اور تکفیری عناصر کے جرائم کے
خلاف شیعہ مظاہروں کے تسلسل کے بعد بالآخر حکومت اور سیکورٹی حکام کی موجودگی میں
پاراچنار کے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان امن کے قیام اور جنگ بندی کے معاہدے پر
دستخط ہو گئے تھے۔
جمعرات، 22 نومبر 2024 کو ہونے والے دہشت گردی
کے واقعے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ حکام، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی
جانب سے مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس مجرمانہ کارروائی میں متعدد کاروں میں سوار
افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے دوران کم از کم 55 افراد شہید ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد شیعہ عوام نے بھی رد عمل دکھایا
اور خونریز جھڑپیں کئی ہفتوں تک جاری رہیں جن میں فریقین کا کافی جانی نقصان ہؤا۔
پاراچنار کے نہتے اور مظلوم مسافروں کی شہادت کے
ردعمل میں پاکستان کی شیعہ جماعتوں نے حکومت اور ریاستی ذمہ داران کی جانب سے اس
جرم کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرنے کے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیری
طاقتیں ملک میں امن اور رواداری کی فضا کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاراچنار کے شیعہ قافلے پر حملے پر صدر اسلامی
جمہوریہ ایران اور وزارت خارجہ نے مذمتی اور تعزیتی پیغامات جاری کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
110