اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

2 جنوری 2025

9:51:44 PM
1519480

مقاومت کی فتح حتمی ہے / لبنان اور یمن مقاومت کی علامت ہیں / مدافعین حرم نہ ہوتے تو آج کوئی حرم باقی نہ رہتا / شہید سلیمانی میرے عزیز بھائی اور مخلص دوست، امام خامنہ ای

شہید جنرل سلیمانی کے اہل خانہ سمیت دفاع حرم اور محور مقاومت کے شہیدوں کے اہل خانہ نے الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی پانچویں برسی کی آمد پر رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور شہید سلیمانی کی ذاتی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ان خصوصیات سے سبق لے کر مکتب سلیمانی ـ یعنی "اسلام اور قرآن کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے" کی طرف گامزن ہونا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے خطاب کا ابتدائی حصہ:

بِسم الله الرّحمن الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین

والصّلاة والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابي القاسم المصطفی محمّد

وعلی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خوش آمدید عزیز بھائیو، عزیز بہنو۔ ماہ رجب المرجب کی آمد ہے؛ دعا کا مہینہ، عبادت کا مہینہ، اللہ سے توسل إلی الله کا مہینہ۔ ہمیں اس مہینے کی فرصتوں سے استفادہ کرنا چاہئے، تاکہ ہم اپنے دلوں کو، اپنی جانوں کو اور اپنی نیتوں کو رحمت الٰہیہ کے بحر بیکراں سے جوڑ دیں۔ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ہمیں خدا سے ہمت مانگنا چاہئے، خدا سے طاقت مانگنا چاہئے، اور خدا سے خدمت میں کامیابی مانگنا چاہئے، خدا سے بندگی کی توفیق مانگنا چاہئے۔ ماہ رجب کی دعائیں اعلیٰ مضامین اور مفاہیم اور اعلیٰ الٰہی اور اسلامی معارف و تعلیمات سے مالامال ہیں۔ خدا سے عافیت طلب کیجئے، توفیق اور کامیابی طلب کیجئے، فتح و نصرت طلب کیجئے۔

ہمارا آج کا یہ اجتماع ہمارے پیار شہید شہید سلیمانی کی شہادت نیز گذشتہ برس شہید سلیمانی کے مزار کے زائرین کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے بپا ہؤا ہے۔ جس کے حوالے سے بعض خاندان اس انداز سے حاضر ہیں، کچھ لبنانی بہنیں اور بھائی بھی ـ خواہ وہ جو لبنان کے واقعات میں زخمی ہوئے ہیں اور خواہ وہ جو ان کے سوا ہیں ـ اس اجتماع میں حاضر ہیں۔  شہادت کا اجتماع ہے، اخلاص کا اجتماع ہے اور حسینیہ کی فضا آپ کی موجودگی سے، اور ان نورانی بیٹھکوں سے، نورانیت حاصل کرتی ہے۔

خدائے متعال کرکے دکھایا کہ عزت اسی کے ہاتھ میں ہے، یہ عزت ہی تو ہے؛ یہ کہ لوگ دور افتادہ علاقوں سے، اور کچھ دوسرے ممالک سے، شہید سلیمانی کی شہادت کی برسی کے موقع پر ان کے مرقد پر مجتمع ہوجاتے ہیں، مرقد کی زیارت کرتے ہیں، ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ پڑھتے ہیں، یہ عزت نہیں ہے تو کیا ہے؟عزت یہ ہے۔ جب آپ خدا کے لئے کام کرتے ہیں، خدا بھی اس انداز سے جواب دیتا ہے۔ [البتہ] یہ دنیا کی حد تک کی بات ہے، اور رحمت الٰہیہ اور نعمت الٰہیہ کے عالم میں ان کا مقام ہمارے لئے ناقابل تصور ہے، لیکن ان کے عمل کا دنیاوی انعام یہ ہے، جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان کا مرقد ہے اور ہزاروں لوگ ان کے مرقد کی زیارت کے لئے روانہ ہوتے ہیں؛ صرف خدا یہ عزت عطا کرتا ہے جب ہم اخلاص کے ساتھ کام کریں، خدا بھی اس انداز سے جواب دیتا ہے۔ کچھ لوگ عزت کمانے کے لئے غلط اوزاروں اور غلط وسائل تلاش کرتے ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ؛ (کیا یہ ان کے پاس سے عزت کے طلبگار ہیں؟"۔ یعنی) کیا وہ کفار کے پاس چلے جاتے ہیں، منافقوں کے پاس چلے جاتے ہیں، عزت کمانے کے لئے؟ "فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا؛ (تو پوری کی پوری  اللہ کے اختیار میں ہے)  [1] عزت اللہ کے ہاتھ میں، خدا کے لئے ہے، خدا کے اختیار میں ہے۔ یہ سورہ نساء کی آیت تھی، ایک آیت سورہ فاطر میں ہے جہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا"، [2] عزت خدا کے اختیار میں ہے۔ اس کا ادراک کرنا چاہئے۔ ہمیں ان آگہیوں اور ان معلومات کو اپنے طرز زندگی میں اور زندگی کی سمتوں پر اثرانداز ہونے دینا چاہئے، اور نافذ کرنا چاہئے۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ اگر ہم عزت چاہتے ہیں تو عزت ہے کہاں اور عزت کا مَعْدَن کہاں ہے۔

رہبر انقلاب کے خطاب کا خلاصہ:

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی پانچویں برسی کی آمد پر ملاقات کے لئے آنے والے، شہید جنرل سلیمانی کے اہل خانہ سمیت دفاع حرم اور محور مقاومت کے شہیدوں کے اہل خانہ سے خطاب کرتے ہوئے غاصبوں اور جارحوں پر شامی قوم کی جلدی یا بدیر کامیابی اور یمن، فلسطین اور لبنان میں مقاومت کے جاری و ساری رہنے پر زور دیتے ہوئے مدافعین حرم شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور فرمایا: شہید سلیمانی ایران کو بھی حرم سمجھتے تھے اور اگر وہ پاک خون نہ ہوتے، تو آج نہ حریم رہتا اور نہ ہی کوئی حرم، اور نہ ہی مزارات مقدسہ کا کوئی نام و نشان ہوتا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا:

ایران اور دوسرے ممالک سے ہزاروں لاکھوں زائرین آج شہید سلیمانی کے مزار پر مجتمع ہو رہے ہیں اور یہ ان کی خداداد عزت و عظمت اور ان کے اخلاص کا ثمرہ ہے۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق عزت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اس معرفتی حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے اور طرز زندگی میں اور زندگی کی مختلف سمتوں میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

جنرل سلیمانی ایک عظیم مجاہد اور میرے عزیز بھائی اور مخلص دوست تھے اور میدان میں بروقت حاضری کے لئے آگے آنا، شجاعت کے ساتھ تیزرفتاری سے حاضر ہونا، ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

جنرل سلیمانی سنہ 2000ع‍ کے عشرے میں امریکی شرانگیزیوں سے نمٹنے کے لئے عراق اور افغانستان کے میدانوں میں حاضر ہوئے؛ عراق اور افغانستان پر امریکی جارحیت اور قبضے کا اصل ہدف ایران تھا، لیکن وہ شریف اور صادق انسان امریکہ کے ظاہری رعب و دبدبے سے خوفزدہ ہوئے بغیر میدان میں اترے اور آخرکار وہ قبضے امریکہ کی شکست اور اس عظیم سازش کی ناکامی پر اختتام پذیر ہوئے۔

جنرل سلیمانی اپنے عدیم المثال کارناموں کی تفصیلات کی کتابت و نشر و اشاعت سے پرہیز کرتے تھے، گوکہ اس حوالے سے دستیاب معلومات بہت زیادہ ہیں جن کو زندہ جاوید دستاویزات کے طور پر ملک کی سیاسی تعلیمات میں ثبت کرنا چاہئے اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنا چاہئے۔

امریکی قابضوں نے عراق پر حملہ کیا اور عراق کے کچھ نہتے اور غیر مسلح نوجوان حرم امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے دفاع کے لئے اٹھے، جنرل سلیمانی نے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، اسی ابتداء ہی سے، بہت تیزی کے ساتھ، ان نوجوانوں سے رابطہ کیا اور انہیں نجات دلائی، گوکہ مرجعیت نے بھی اس مسئلے میں انتہائی مؤثر اور غیر معمولی کردار ادا کیا۔

امریکیوں نے عراق پر قبضہ اس لئے کیا تھا کہ وہ صدام کے جانشین بننا چاہتے تھے، امریکی عراق میں رہنے کے لئے آئے تھے، اور جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے لیکن جنرل سلیمانی نے ایک سخت، پیچیدہ اور طویل عمل کے ذریعے، سیاسی، عسکری، تشہیری و تبلیغی اور ثقافتی میدانوں میں جاری ترکیبی جنگ میں، عراقی عوام کو اپنے مقدرات پر حکمرانی کا حق دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

داعش کی امریکی سازش کی شکست بھی الحاج قاسم سلیمانی کے تیزرفتار، بروقت اور فیصلہ کن اقدام کا نتیجہ تھی۔ تکفیری دہشت گردی سے نمٹنے میں عراقی نوجوان حقیقی معنوں میں چمکے، لیکن اس سازش کی ناکامی میں ـ جس پر کہ علاقے کی موت و حیات کا دارمدار تھا ـ شہید سلیمانی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں، بہادری، جانفشانی اور طاقت سے عدیم المثال کردار ادا کیا۔

جہادی سرگرمیوں میں شہید سلیمانی کی مستقل حکمت عملی "محور مقاومت [یعنی محاذ مزاحمت] کی بحالی" سے عبارت تھی، اور یہ ان کی نمایاں خصوصیت تھی کہ انھوں نے محور مقاومت کے احیاء اور بحالی کے لئے شام، لبنان اور عراق کی صلاحیتوں اور جہاد و شہادت کے لئے تیار نوجوانوں اور قومی قوتوں سے انتہائی احسن طریقے سے استفادہ کیا۔

عراق پر داعش کی یلغار کے بعد، داعش کے مقابلے میں استقامت اور پامردی کی ضرورت پر مبنی مرجعیت کے تاریخی فتوی کے جاری ہونے کے ساتھ ہی ہزاروں نوجوانوں میدان میں آئے لیکن وہ غیر منظم تھے اور ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا، تو شہید سلیمانی نے عراق کے عظیم مجاہدوں ـ بالخصوص شہید ابو مہدی المہندس جیسی عظیم اور قابل قدر شخصیات ـ کی مدد سے ان نوجوانوں کو منظم کیا، انہیں تربیت دی اور اسلحہ دیا۔

مقدس حریموں اور مشاہد مشرفہ کا تحفظ الحاج قاسم سلیمانی کے جہادی دور میں ایک مستقل اصول سمجھا جاتا تھا، جنرل سلیمانی ایران کا دفاع بھی کرتے تھے تو اس کو حرم سمجھتے تھے اور مقدس حریموں اور حرموں کے دفاع کی یہ منطق بہت اہم اور ضروری ہے۔

جنرل شہید سلیمانی کے لئے عراق کے مزارات مقدسہ، شام میں زینبیہ اور عراق اور شام میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے صحابہ کے مزارات اور بطور خاص فلسطین میں مسجد الاقصیٰ کا دفاع و تحفظ ایک اہم اصول تھا اسی بنا پر جب وہ شہید ہوئے تو شہید اسماعیل ہنیہ نے ان سے وداع کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں "شہید القدس" کا لقب دیا۔

شہید سلیمانی کی ایک اہم خصوصیت یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کا تجزیہ بھی عالمگیر طرف فکر کی روشنی میں کرتے تھے اور مسائل میں فکری جمود اور محدود قسم کی نگاہ، سے پرہیز کرتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ کوئی بھی اہم علاقائی اور عالمی واقعہ ہمارے ملک پر بھی نظر انداز ہوتا ہے، اور اسی طرز فکر سے اور اسی تناظر اور حساب و کتاب سے، وہ سرحدوں کے پار سے آنے والے خطروں کو پہچان لیتے تھے اور ان کا سد باب اور علاج کے لئے اقدام کرتے تھے۔

آج "مکتب سلیمانی" کے سانچے میں شہید سلیمانی کی ممتاز خصوصیات پر غور کیا جا سکتا ہے؛ یہ مکتب وہی اسلامی و قرآن کا مکتب ہے اور شہید سلیمانی اس کی پابندی کرکے "معیار، مرکز اور محور" بن گئے اور ہمارا ایمان بھی ان کی طرح ہو اور ہم بھی ان کی طرح عمل صالح سرانجام دیں، تو ہم بھی سلیمانی بن سکتے ہیں اور اللہ کے خاص لطف سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔

کیا مدافعین حرم کا خون شام میں رائیگاں گیا؟

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں دفاع حرم اور اس کی راہ میں بہنے والے پاک خون کے سلسلے میں ہونے والی قیاس ارائیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

کچھ لوگ "صحیح فہم و شناخت" اور "مسائل کے بارے میں صحیح تجزیہ" نہ ہونے کے باعث تصور کرتے ہيں کہ خطے میں حالیہ واقعات رونما ہونے کی وجہ سے دفاع حرم کی راہ میں بہنے والا پاک خون [یعنی مدافعان حرم کا خون شام میں] رائیگاں گیا؛ حالانکہ یہ انتہائی غلط تصور ہے؛ کیونکہ اگر الحاج قاسم اور مدافعین حرم کی دلیرانہ جدوجہد نہ ہوتی تو آج زینبیہ میں بھی اور حتی کربلا و نجف میں بھی حرم ہائے مقدس کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔

ایک موقع پر عراقی شہر سامرا کے حوالے سے تھوڑی سی غفلت ہوئی تو تکفیریوں نے امریکیوں کی مدد سے امام علی النقی اور امام حسن العسکری (علیہما السلام) کے گنبد و ضریح کو شہید کر دیا اور اگر مؤمن نوجوانوں کی جانفشانی نہ ہوتی دوسرے حرم ہائے مقدسہ اور مسلمانوں کے دلوں کی یہ قبلہ گاہوں کا انجام بھی ویسا ہی ہوتا لیکن عزیز اور سربلند مدافعین حرم نے دشمن کا راستہ روک لیا اور اس کے منہ میں گھونسا رسید کیا۔

بے شک حرم کا دفاع اس مقدس مقام کا دفاع ہے، لیکن یہ درحقیقت اس مقام کے مالک نیز مکتب ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کا دفاع بھی ہے۔ [اور پھر] قرآنی مکتب و ثقافت میں، راہ حق میں بہنے والا خون ـ خواہ اگر کامیابی حاصل نہ بھی ہو ـ کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بیش قیمت اور قابل قدر ہے؛ جیسا کہ جنگ احد میں حمزہ سیدالشہداء (علیہ السلام) کا خون اور ان سے بھی بڑھ کر کربلا میں سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کا خون، رائیگاں نہیں گیا۔

فتح و کامیابی حتمی ہے

حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے مزید فرمایا:

یقینا، فتح و کامیابی حتمی اور یقینی ہے اور باطل کی حالیہ جولانیوں اور حرکتوں کو اہمیت نہیں دینا چاہئے، کیونکہ یہ جو آج جولانیاں دکھا رہے ہيں، ایک دن مؤمنین کے پاؤں تلے روندے جائیں گے۔

حالیہ برسوں میں، دفاع حرم کے حوالے سے، شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے کارہائے نمایاں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انقلاب اسلامی کا شجرہ طیبہ ہشاش و بشاش، تر و تازہ اور ثمردار ہے۔ جیسا کہ سنہ 1980ع‍ کے عشرے میں نوجوان اپنے والدین کی رضامندی حاصل کرنے اور محاذ جنگ پر جانے کے لئے ان کے پاؤں پڑتے تھے، سنہ 2000ع‍ کے عشرے نیز سنہ 2010ع‍ کے عشرے میں شہید حُجَجی کے طرح کے نوجوان ماؤں کے پاؤں چومتے تھے اور ان سے جہاد کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور ان حقائق سے بخوبی نمایاں ہے کہ اسلامی جمہوریہ 46 سال بعد بدستور زندہ اور پائندہ ہے۔

ایران کے کروڑوں نوجوان اسلام کے دفاع کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں؛ مدافعین حرم نے ثابت کرکے دکھا کہ بدخواہوں کی بھاری سرمایہ کاریوں اور اخراجات برداشت کرنے کے باوجود، مقاومت کا پرچم ہمیشہ کے لئے بلند ہے اور دشمن لبنان، فلسطین، شام، عراق اور ایران میں مقاومت کا پرچم گرانے میں ناکام رہا ہے اور ناکام رہے گا۔

ممالک کے لئے طاقت کے عوامل کا تحفظ ممالک کی ضرورت

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی نے فرمایا:

کسی بھی ملک کی قومی طاقت کے وسائل اور عوامل و اسباب کی حفاظت قومی استواری اور ثابت قدمی جاری رکھنے کے لئے ضروری ہیں؛ با ایمان اور قربانی کے لئے ہر دم تیار نوجوانوں کا مجموعہ ایک ملک کے استحکام اور طاقت کے اہم ترین عوامل میں سے ہوتا ہے اور ایسے نوجوانوں کو کسی صورت میں بھی میدان سے نکال باہر نہیں کرنا چاہئے۔

البتہ ہمارے ملک میں اس مسئلے کو کافی حد تک توجی دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک کو بھی اس کی طرف متوجہ رہنا چاہئے؛ کیونکہ مؤمن اور جان بَکَف نوجوانوں کے میدان سے نکلنے کی وجہ سے شام جیسی صورت حال اور افراتفری پیش آ سکتی ہے اور امریکہ اور صہیونی ریاست سے دشمنوں یا دوسرے جارح ممالک کے حملے میں سرزمین پر قبضے کا خطرہ پیش آ سکتا ہے۔

اگرچہ شام میں جارح قابضین کی موجودگی جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ شام کے مالک شامی عوام ہیں اور شام کی سرزمین پر جارحیت اور قبضہ کرنے والوں کو بلا شبہہ ایک دن شام کے غیور نوجوانوں کی طاقت کے سامنے، اس ملک سے پسپا ہونا پڑے گا۔

شام میں امریکی اڈوں کی تعمیر!

رہبر انقلاب نے فرمایا:

امریکی شام کی سرزمین میں مسلسل فوجی اڈے قائم کر رہا ہے، حالانکہ جارح کو ایک قوم کی سرزمین سے نکل جانا چاہئے ورنہ اس کو نکال باہر کیا جاتا ہے؛ چنانچہ یہ امریکی اڈے بھی یقینا شامی نوجوانوں کے پاؤں تلے روندے جائیں گے۔

بہر صورت حتمی فتح ایمان والوں کی ہے، لبنان مقاومت کی علامت ہے اور اگر چہ زخمی ہؤا ہے، جھکا نہیں ہے اور آخرکار فاتح و کامیاب ہوگا، جیسا کہ یمن بھی مقاومت کی علامت ہے اور فاتح و کامیاب ہوگا، اور ان شاء اللہ جارح دشمن ـ اور ان میں سر فہرست لالچی اور جرائم پیشہ امریکہ کو مجبور ہو کر، خطے کے عوام کو، اپنے حال پر چھوڑنا پڑے گا اور اس کو خطے سے ذلت و خفت کے ساتھ علاقے سے نکلنا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110



[1]۔ "الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا؛ وہ جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست [اور سرپرست] بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس سے عزت کے طلبگار ہیں؟ عزت تو پوری کی پوری  اللہ کے اختیار میں ہے "۔

[2]۔ "مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ؛ جو عزت چاہتا ہے تو عزت تو تمام بس اللہ کے لئے ہے، اس کی طرف بلند ہوتے ہیں، اچھے اچھے کلمے اور اچھا عمل، وہ اسے بلند کرتا ہے اور جو برائیوں کے منصوبے بناتے ہیں ان کے لئے بہت سخت عذاب ہے اور ان کے منصوبے ملیامیٹ ہوتے ہیں"۔ (سورہ فاطر، آیت 10)