اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) نے ـ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد ـ انساب
عرب کے نامی گرامی عالم اور اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب کے مشورے پر فاطمہ بن
حزام کو ـ جن کا خاندان بہادری اور شرافت کے لئے مشہور تھا ـ شادی کے لئے منتخب
کیا۔
جناب فاطمہ بن
حزام نے چار بیٹوں ـ عباس، جعفر، عبداللہ اور عثمان ـ کی ماں ہونے کے ناطے ام
البنین کا لقب پایا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی نسل جناب ام البنین (علیہا
السلام) سے صرف عبیداللہ بن عباس سے چلی ہے۔
جناب ام البنین
(علیہا السلام) کربلا میں حاضر نہیں ہوئیں مگر آپ کے تمام بیٹوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے قدموں میں شہادت پائی۔ اور تاریخی مرویات
کے مطابق، جناب ام البنین (علیہا السلام) اپنے بیٹوں سے زیادہ، امام حسین (علیہ
السلام) کے لئے فکرمند تھیں۔
1- نسب نامہ
فاطمہ بنت حزام
یا حرام [1] بن
خالد بن ربیعہ، بنی کلاب بن ربیعہ سے، قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ سے، عدنانی عرب
تھیں۔ [2] صحابہ کے بارے میں تحقیق کرنے والوں میں سے کچھ
نے آپ کے والد "حزام" کے بارے میں لکھا ہے کہ "لہ ادراک"،
یعنی انھوں نے دوران رسالت کو دیکھ لیا لیکن صحابہ میں شمار نہیں ہوتے۔ [3] جناب
ام البنین (علیہا السلام) کی والدہ ثمامہ (لیلیٰ [4] بنت
سہیل بن عامر بن مالک) بھی بنی کلاب کے قبیلے سے ہیں۔ [5] جناب ام البنین (علیہا السلام) کی دادیوں میں سے ایک عاتکہ ہیں، جن کے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عبد شمس
بن عبد مناف کی بیٹی تھیں۔ [6] ان کے
چچا لبید بن ربیعہ مشہور عرب شعرا میں سے ایک ہیں۔ [7] آپ کی
ولادت کی صحیح تاریخ نامعلوم ہے، گوکہ ان کی ولادت کی تاریخ سنہ 5ھ بتائی گئی ہے۔ [8]
2- جناب ام
البنین کی شخصیت
مؤرخین نے جناب
ام البنین (علیہا السلام) کو شاعرہ اور فصیح خاتون کے طور پر متعارف کرایا ہے [9] جو
ایک شریف اور بہادر خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ [10]
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ شادی سے قبل آپ کی زندگی کے ایام، کا کوئی
تذکرہ تاریخ میں نہیں آیا ہے۔ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد
آپ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے حبالۂ نکاح میں آئیں۔ چونکہ جناب ام البنین
(علیہا السلام) کے پہلے فرزند حضرت عباس بن علی (علیہما السلام) سنہ 26ھ میں پیدا
ہوئے ہیں [11]
نیز سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی وصیت کے مطابق، امیرالمؤمنین (علیہ
السلام) کی سیدہ کی بھانجی امامہ سے شادی [12]
کے حوالے سے منقولہ روایات کی رو سے، لگتا ہے کہ حضرت امیر (علیہ السلام) سے آپ کی
شادی سنہ 25ھ میں ہوئی ہوگی۔
3۔ حضرت
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے شادی
بہرحال، سیدہ
فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اپنے
بھائی عقیل سے ـ جو کہ نسب شناس عالم تھے، سے فرمایا کہ ایک شریف اور بہادر خاندان
کی بیٹی سے آپ کے لئے رشتہ مانگ لیں جو شجاع اور دلیر بیٹوں کی ماں بنے۔ عقیل
جانتے تھے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) کے آباء و اجداد دلیر اور شجاع تھے، چنانچہ انھوں نے جناب ام البنین (علیہا
السلام) سے رشتہ مانگنے کی تجویز دی۔ [13]
جناب ام البنین (علیہا السلام) کے آباء و اجداد، قبل از اسلام، عرب کے دلیروں میں
سے تھے، جیسا کہ آپ کے پردادا ابوبرہ عامر بن مالک عرب قبائل کے درمیان شجاعت کے
لحاظ سے بے مثال تھے اور انہیں "مُلاعِبُ الأَسِنّة" (نیزوں کے ساتھ کھیلنے والا) کہا جاتا تھا۔ [14] ابن
عبدالبر کی روایت کے مطابق، وہ اسلام قبول کرنے سے قبل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و
آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ عطیات پیش کرکے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے
درخواست کی کہ کچھ مبلغین کو نجد کے علاقے میں بھجوا دیں۔ [15]
کچھ متأخر مصادر میں منقول ہے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) نے امیرالمؤمنین (علیہ
السلام) کی شادی کے پیغام کے جواب میں قسم اٹھا کر کہا: "میں ان کے بچوں کے
لئے دلسوز ماں کا کردار ادا کروں گي"۔ جب جناب ام البنین (علیہا السلام) امیرالمؤمنین کے گھر میں داخل ہوئیں تو
انھوں نے آپ کے بچوں کی دیکھ بھال کی اور ان کے ساتھ حقیقی ماں جیسا سلوک کیا۔ وہ
بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ [16]
مروی ہے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے
درخواست کی کہ انہیں "فاطمہ" کہہ کر نہ پکاریں؛ اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بچے یہ نام سن کر اپنی والدہ ماجدہ کو یاد
کر سکتے ہیں اور غمگین ہو سکتے ہیں۔ [17]
4۔ اولاد
امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) کے ساتھ جناب ام البنین (علیہا السلام) کی شادی کا ثمرہ چار بیٹے ـ
جناب عباس، جناب جعفر، جناب عبداللہ اور جناب عثمان (علیہم السلام) ـ تھے۔ [18]
کچھ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کے ایک بیٹے کا نام ابوبکر بھی تھا۔ [19]
اور کچھ نے چار ناموں ميں "عثمان" کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ [20]
ان بیٹوں کے بدولت آپ "ام البنین" (بیٹوں کی ماں) کے لقب سے مشہور
ہوئیں۔ تاریخی مصادر نے جناب ام البنین (علیہا السلام) کی زندگی، سنہ 35ھ میں
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت کے دوران آپ کی ہجرت کوفہ، اور شہادت
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے بعد آپ کی زندگی کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔
آپ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شادی کے بعد، کسی کے حبالۂ نکاح میں نہیں
آئیں؛ یہی نہیں بلکہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ازواج نے دوسری شادی کے سلسلے
میں آپ سے مشورہ کیا تو آپ نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ "امیرالمؤمنین علی
(علیہ السلام) کے بعد کسی دوسرے مرد کے ساتھ ازدواجی بندھن قائم کرنا مناسب نہیں
ہے"؛ اور ان سب نے آپ کے مشورے پر عمل کیا۔ [21]
5۔ فرزندوں کی
شہادت
جناب ام البنین
(علیہا السلام) کربلا میں حاضر نہیں ہوئیں مگر آپ کے تمام بیٹوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے قدموں میں شہادت پائی۔
جناب عباس بن
علی (علیہ السلام)، جن کا لقب "عباس الاکبر" اور کنیت
"ابوالفضل" ہے۔ [22] وہ
اپنے سگے بھائیوں سے بڑے ہیں اور عاشورا کے دن سب سے آخر میں جام شہادت نوش کر گئے
ہیں۔ [23] جناب
جعفر بن علی کی کنیت "ابو عبداللہ" ہے جو 29 سال کی عمر میں جام شہادت
نوش کر گئے، جناب عثمان بن علی کی کنیت "ابو عمرو" ہے جو 21 سال کی عمر
میں شہید ہوئے [24]
اور عبداللہ (الاکبر) [25]
کی کنیت "ابو محمد" ہے۔ [26]
تاسوعا سنہ 61ھ
کی شب جناب ام البنین (علیہا السلام) کا بھتیجا عبداللہ بن ابی المحل بن حزام اور
شمر بن ذی الجوشن کلابی ـ جو آنجناب کے قبیلے سے تھا ـ کوفہ کے یزیدی گورنر
عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے ایک امان نامہ آپ کے بیٹوں کے لئے لے کر آئے؛ لیکن
انہوں نے اس کے امان نامے کو سختی سے مسترد کر دیا۔ [27]
6- ام البنین (علیہا
السلام) کی عزاداری
خاندان رسالت سے
جناب ام البنین (علیہا اسلام) کی خالصانہ اور مخلصانہ محبت، نیز سیدالشہداء امام
حسین (علیہ السلام) کی راہ میں آپ کے فرزندوں کی شہادت کی بنا پر، اہل بیت (علیہم
السلام) کے پیروکار اور شیعیان عالم کے ہاں آپ کی منزلت انتہائی بلند اور قابل قدر
و احترام ہے۔ اور وہ اپنے دنیاوی اور اخروی امور میں جناب ام البنین (علیہا
السلام) سے خدا کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرتے ہیں۔
کچھ تاریخی مصادر میں منقول ہے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) کربلا کے
واقعے سے آگاہ ہونے کے بعد، اپنے بیٹوں سے
زیادہ، امام حسین (علیہ السلام) کے لئے فکرمند ہوئیں۔
انھوں نے امام حسین (علیہ السلام) کا حال پوچھا اور فرمایا: "اگر حسین زندہ
ہوں تو مجھے اپنے بیٹوں کی شہادت کا کوئی غم نہیں ہے۔ [28] مؤرخین نے آپ کے اس کلام کو خاندان رسالت ـ بالخصوص امام حسین (علیہ السلام) کے
لئے آپ کے اخلاص کامل کا عملی ثبوت قرار دیا ہے۔ بعدازاں آپ بنی ہاشم کی خواتین کے
ساتھ اپنے گھر میں مجلس عزا بپا کرتی تھیں۔ [29] آپ ہر روز اپنے پوتے عبیداللہ بن عباس کے ساتھ بقیع چلی جاتی تھیں، عباس (علیہ
السلام) کا مرثیہ کہتی تھیں اور دردمندی سے گریہ و بکاء کرتی تھیں اور لوگوں سے
فرماتی تھیں کہ "مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارو، کیونکہ میرے چاروں شیر بچے
شہید ہو چکے ہیں، اور میرا مزید
کوئی بیٹا نہیں ہے کہ مجھے "ام البنین" کہا جا سکے۔ آپ اپنے ایک مرثیے
میں اپنے بیٹوں کے کارزار کے شاہدوں سے پوچھتی ہیں: "آہنی گُرْز میرے بیٹے عباس کے
سر پر کیسے اترا؟ اور پھر خود ہی جواب دے کر فرماتی ہیں: اگر عباس کے ہاتھ ہوتے،
اگر اس کے ہاتھ میں شمشیر ہوتی، یقینا کوئی اس کے قریب آنے کی جرأت نہ کر سکتا۔ [30] لوگ
آپ کے پاس آکر جمع ہو جاتے تھے اور آپ کے ساتھ گریہ و بکاء میں شریک ہوجاتے تھے۔
کہا گیا ہے کہ حتیٰ کہ مدینہ کا اموی والی اور مروان بن حَکَم بھی - دشمن اہل بیت
(علیہم السلام) تھا ـ جناب ام البنین (علیہا السلام) کے حزن انگیز مرثیے سن کر رو
پڑتا تھا۔ [31]
7- وفات اور مدفن
مروی ہے کہ جناب
ام البنین (علیہا السلام)
13 جمادی الثانی سنہ 64ھ یا سنہ 70ھ کو مدینہ میں وفات پا گئیں۔ [32] اور اپنے
شہیدوں سے جاملیں۔ کچھ مؤرخین نے آپ کا مدفن "بقیع" بتایا ہے اور کہا ہے
کہ بقیع کے داخلی دروازے کی سمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پھوپھیوں صفیہؓ اور عاتکہؓ کے پہلو میں
مدفون ہیں۔ [33] تاہم کچھ دوسروں نے اس قول کو رد کردیا ہے؛
کیونکہ نہ صرف مسلمہ مصادر میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہؤا ہے بلکہ حالیہ دو
صدیوں کے درمیان لکھے گئے سفرناموں سے بھی اس قول کی تصدیق نہيں ہوتی۔ چنانچہ کہا
جا سکتا ہے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) کا مدفن بقیع میں ہی، امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) کی دوسری زوجات اور فرزندوں کے پہلو میں ہونا چاہئے، گوکہ آپ کی قبر
کا صحیح مقام نامعلوم ہے۔ [34]
8- نسل امیرالمؤمنین (علیہ السلام) جناب ام البنین
(علیہا السلام) سے
جناب ام البنین (علیہا
السلام) سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی نسل،
صرف صرف عبیداللہ بن عباسؑ سے
چلی [35] :
1۔ عبیداللہ بن
حسن بن عبیداللہ بن عباسؑ سنہ 204ھ میں امیرالحرمین کے عہدے پر فائز
ہوئے اور اس سال کے امیرالحاج تھے۔ [36]
2. فضل بن حسن بن
عبیداللہ بن عباسؑ ـ جنہیں ابن ہاشمیہ کہا جاتا تھا اور خلفاء کے نزدیک جاہ و حشمت
کے مالک اور انتہائی قابل احترام تھے۔ [37]
3۔ ابوعبداللہ
محمد بن علی بن حمزہ بن حسن بن عبیداللہ بن عباس بن علی (علیہم السلام) شاعر بھی
تھے اور امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) کی احادیث کے راوی بھی تھے اور امام
(علیہ السلام) کی والدہ آپؑ کی شہادت کے بعد، ان کے ہاں رہائش پذیر رہیں۔ [38]
4۔ عباس بن حسن
بن عبیداللہ، جنہیں علویین ابو طالب (علیہ السلام) کی اولاد کا سب سے بڑا شاعر
سمجھتے تھے اور بعداز وفات بقیع میں مدفون ہوئے۔ [39]
عباس علمدار ابن
امیرالمؤمنین (علیہما السلام) کی اولاد
ایران میں عباس علمدار
ابن امیرالمؤمنین (علیہما السلام) کی اولاد میں سے کئی امام زادگان کے مشاہد و
بارگاہیں واقع ہوئی ہیں جو زیارتگاہِ خاص و عام ہیں۔ کہا گیا ہے کہ مقدس شہر قم میں امام زادہ سید (شاہ سید علی) ان ہی میں سے
ایک ہیں جن کا شجرہ نسب کچھ یوں مندرج ہے:
سید علی بن ابراہیم بن جعفر بن عباس بن امیرالمؤمنین (علیہ السلام) [40]
تاہم چونکہ مصادر سے ثابت ہے کہ جناب ام البنین (علیہا السلام) سے، امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) کی نسل صرف عبیداللہ بن عباس (علیہ السلام) سے چلی ہے [41] لہذا شاہ سید علی کی جعفر بن علی (علیہما
السلام) سے نسبت درست نہیں ہے بلکہ یہ معزز امام زادہ درحقیقت علی بن إبراہیم بن جعفر بن محمد بن الحنفيہ بن امیرالمؤمنین علی بن بن
ابی طالب (علیہ السلام) ہیں۔
کتاب "الفخری في أنساب الطالبيين" [42]
کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ قم میں ابو القاسم (شاہ سید) علی کو جناب محمد بن حنفیہ
بن امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی اولاد میں شمار کیا ہے۔ اور انسان اور تواریخ کے
عمومی اور خصوصی مصادر میں نہیں دیکھا گیا کہ حضرت ابو الفضل العباس (علیہ السلام)
کی اولاد میں سے کوئی امام زادہ قم تشریف لایا ہے۔ [43]
البتہ عباس بن امیرالمؤمنین
(علیہما السلام) کی زیادہ تر اولاد حجاز، عراق، مصر، اردن اور ترکمنستان میں پھیلی
ہوئی ہے جن میں بعض علم و دانش و ادب اور شعر و حدیث میں اپنے زمانے
کے پیشوا تھے؛ ان ہی میں سے ایک ابو یعلی حمزہ بن قاسم بن علی
بن حمزہ بن حسن بن عبیداللہ بن عباس قابل اعتماد شیعہ محدث اور "التوحید"،
"الزیارۃ والمناسک" جیسی کتابوں کے مصنف ہیں جن کا مزار عراق کے شہر عراق
کے شہر حلہ میں واقع ہے اور لوگوں کی زیارت گاہ ہے۔ [44]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین
مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ مسعودی، علی بن
حسین، مروج الذہب، ج3، ص58؛ ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج5، ص134۔
[2]۔ ابن قتیبہ،
عبداللہ بن مسلم، المعارف، ص88؛ یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج2، ص213؛
ابن حزم، علی بن احمد، جمہرۃ انساب العرب، ص37۔
[3]۔ ابن حجر
العسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص145۔
[4]۔ ابن عنبہ، احمد
بن علی، عمدۃ الطالب، ص356۔
[5]۔ بلاذری، احمد بن
یحییٰ، انساب الاشراف، ج3، ص389؛ ابن حزم، علی بن احمد، جمہرۃ انساب العرب، ص282؛
ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص87؛ السماوی، محمد بن طاہر،
ابصار العین، ص56۔
[6]۔ ابوالفرج اصفہانی،
علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص87؛ السماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین، ص56۔
[7]۔ بلاذری، احمد بن
یحییٰ، انساب الاشراف، ج2، ص192؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج11، ص541۔
[8]۔ السیوج، سید مہدی،
امالبنین سیدۃ نساء العرب، ص9؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج8، ص389؛ ربانی
خلخالی، علی، ستارہ درخشان، ص12۔
[9]۔ کحالہ، عمررضا،
اعلام النساء، ج4، ص40؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج8، ص389۔
[10]۔ ابن عنبہ، احمد
بن علی، عمدۃ الطالب، ص357؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج8، ص389۔
[11]۔ مامقانی،
عبداللہ، تنقیح المقال، ج2، ص128۔
[12]۔ ابن شہرآشوب،
محمد بن علی، المناقب، ج3، ص137؛ ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، ج6، ص22۔
[13]۔ ابن عنبہ، احمد
بن علی، عمدۃ الطالب، ص357؛ مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، ج2، ص128؛ ام علی،
اشعار النساء، ص131۔
[14]۔ ابن عنبہ، احمد
بن علی، عمدۃ الطالب، ص356؛ ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، ج2، ص396؛
مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، ج2، ص128۔
[15]۔ ابن عبدالبر، یوسف
بن عبداللہ، الاستیعاب، ج4، ص1450؛ ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، ج3، ص36۔
[16]۔ السیوج، سید
مہدی، امالبنین سیدۃ نساء العرب، ص50؛ شبّر، جواد، ادب الطف، ص74؛ شبّر، جواد، ادب الطف، ص73؛ الاشیقر، محمد علی یوسف،
العباس رجل العقیدۃ و الجہاد، ص34۔
[17]۔ ربانی خلخالی،
علی، ستارہ درخشان، ص94۔
[18]۔ ابن سعد، محمد
بن سعد، الطبقات، ج3، ص14؛ بلاذری، احمد بن یحییٰ، انساب الاشراف، ج3، ص390؛
المنتظم، ابن الجوزی، ج5، ص69۔
[19]۔ ابن قتیبہ،
عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج2، ص12؛ ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد
الفرید، ج5، ص134؛ ابن حزم، علی بن احمد، جمہرۃ انساب العرب، ص38۔
[20]۔ ابن قتیبہ،
عبداللہ بن مسلم، المعارف، ص88؛ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مفید،
محمد بن محمد، الاختصاص، ص82۔
[21]۔ ربانی خلخالی،
علی، ستارہ درخشان، ص48۔
[22]۔ بلاذری، احمد بن
یحییٰ، انساب الاشراف، ج2، ص413؛ ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین،
ص89؛ علوی، علی بن محمد، المجدی، ص15۔
[23]۔ ابوالفرج اصفہانی،
علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص89؛ تمیمیّ المغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار،
ج3، ص184۔
[24]۔ ابن سعد، محمد
بن سعد، الطبقات، ج3، ص14؛ بلاذری، احمد بن یحییٰ، انساب الاشراف، ج2، ص413؛ ابن
شہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، ج3، ص259؛ علوی، علی بن محمد، المجدی، ص15۔
[25]۔ علوی، علی بن
محمد المجدی، ص15۔
[26]۔ ابوالفرج اصفہانی،
علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص87؛ طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، ص99؛ طوسی،
محمد بن حسن، رجال طوسی، ص102؛ طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، ج1، ص395۔
[27]۔ طبری، محمد بن
جریر، تاریخ طبری، ج5، ص415؛ ابن اعثم، احمد بن علی، الفتوح، ج5، ص94؛ مفید، محمد
بن محمد، الارشاد، ج2، ص89۔
[28]۔ نجاشی، احمد بن
علی، رجال النجاشی، ص347؛ علوی، علی بن محمد، المجدی، ص235؛ ابن عنبہ، احمد بن علی،
عمدۃ الطالب، ص358۔
[29]۔ شبّر، جواد، ادب
الطف، ص74۔
[30]۔ تمیمیّ المغربی،
نعمان بن محمد، شرح الاخبار، ج3، ص186؛ السماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین، ص64؛
پورامینی، محمدامین، مع رکب الحسین، ج6، ص410۔
[31]۔ ابوالفرج اصفہانی،
علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص90؛ تمیمیّ المغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار،
ج3، ص186؛ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج45، ص40۔
[32]۔ السیوج، سید مہدی،
امالبنین، ص41۔
[33]۔ جعفریان، رسول،
آثار اسلامی، ص349۔
[34]۔ نجمی، محمدصادق،
تاریخ حرم، ص275۔
[35]۔ بلاذری، احمد بن
یحییٰ، انساب الاشراف، ج2، ص412؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج5، ص153؛ فخر
رازی، محمد بن عمر، الشجرۃ المبارکۃ، ص184۔
[36]. نویری، احمد بن عبدالوہاب، نہایۃ
الارب، ج22، ص211؛ ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدۃ الطالب، ص357۔
[37]۔ ابن عنبہ، احمد
بن علی، عمدۃ الطالب، ص357؛ علوی، علی بن محمد المجدی، ص232۔
[38]۔ نجاشی، احمد بن
علی، رجال النجاشی، ص347؛ علوی، علی بن محمد، المجدی، ص235؛ ابن عنبہ، احمد بن علی،
عمدۃ الطالب، ص358۔
[39]۔ علوی، علی بن
محمد، المجدی، ص236؛ ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدۃ الطالب، ص359۔
[40]۔ جواہر کلام،
عبدالحسین، تربت پاکان قم، ج1، ص150؛ مدرس طباطبایی، حسین، تربت پاکان آثار و
بناہای قدیم، ج2، ص103۔
[41]۔ بلاذری، احمد بن
یحییٰ، انساب الاشراف، ج2، ص412؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج5، ص153؛ فخر
رازی، محمد بن عمر، الشجرۃ المبارکۃ، ص184۔
[42]۔ المروزی
الأزورقانی، عزیزالدین، اسماعیل بن حسین، الفخری في أنساب الطالبيين، 167۔
[43]۔ اردکانی، احمد
محیطی، سبزپوشان، نگاہی بہ زندگی نامہ امام زادگان مدفون در شہر مقدس قم
(شہر مقدس قم میں مدفون امام زادگان کی زندگی پر ایک نظر)، ص47۔
[44]۔ النجاشی، احمد
بن علی، رجال النجاشی، ص140؛ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج48، ص315 اور
ج53، ص286؛ محدث قمی، عباس بن محمد رضا (المعروف بہ شیخ عباس قمی)، الکنی و
الالقاب، ج1، ص186۔
