اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

3 جولائی 2024

1:14:42 AM
1469219

زمخشری لکھتے ہیں: "آیت مباہلہ اہل بیت اور اصحاب کساء (علیہم السلام) کی فضیلت کی دلیل ہے جس سے بالا تر کوئی دلیل نہیں ہے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

آیت مُباہلہ؛ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آنے والا مشہور واقعہ یعنی واقعۂ مباہلہ [1] کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین اس آیت کو اصحاب کساء یعنی پنجتن پاک خصوصا امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے فضائل کے زمرے میں قرار دیتے ہیں۔ یہ آیت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جان اور کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اس آیت کو قرآن کریم میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی سب سے بڑی فضیلت قرار دیا ہے۔

آیت مباہلہ

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ؛ [2]

چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس [حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)] کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر"۔

شأن نزول

شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم [3] ہے؛ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتیٰ کہ آپؑ نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔ [4]

اہل سنت کے مفسرین محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمى [5] فخرالدین الرازی، محمد بن عمر بن حسین بن حسن التَیْمیِّ البَکْریِّ، [6] عبداللہ بن عمر البیضاوی الشیرازی [7] وغیرہ نے کہا ہے:  کہ "أَبْنَاءنَا" [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسن اور حسین (علیہما السلام) ہیں اور "نِسَاءنَا" سے مراد فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور "انفسنا" [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما اسلام) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی کے مطابق آیت تطہیر [8] اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے۔ بہر حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آیت مباہلہ کے نزول کے بعد نجران کے نصارٰی کو مباہلے کی دعوت دی اور آپؐ حکم پروردگار کے مطابق علی و فاطمہ اور حسن و حسین (علیہم السلام) کو ساتھ لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوئے۔

نصارائے نجران نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہو کر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپؐ کے ساتھ صلح کرلی؛ اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرتؐ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔ [9]

بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے؛ چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔ [10]

تفسیر

اگرچہ مباہلہ پہلے مرحلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور عیسائی زعماء کے درمیان تھا لیکن فرزندوں اور خواتین کو بھی بیچ میں لایا گیا تا کہ معلوم ہوجائے کہ مباہلہ کی دعوت دینے والا اپنی دعوت کی سچائی سے مطمئن اور برحق ہے؛ اس حد تک کہ آپؐ اپنے عزیز ترین اور قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں لائے، ایسے افراد کو جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان کی مدد و حمایت کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ہے۔

علاوہ ازیں علامہ سید محمد حسین طباطبائی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اپنے خاندان کو میدان مباہلہ میں لانے کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

"گویا اس عمل کے ذریعے یہ کہا جارہا ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت کو بد دعا دے اور دونوں جماعتیں خدا کی لعنت کو جھوٹوں پر قرار دیں تاکہ لعن و عذاب خواتین اور جانوں کا احاطہ بھی کرلے اور دشمنوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں"۔ [11]

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ابناء، نساء اور انفس دو سے زیادہ ہوں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان پر صیغۂ جمع کا اطلاق صحیح ہے؛ کیونکہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق، صیغۂ جمع سے مقصود یہ ہے کہ تنا‌زعے کو دو فریقوں میں سے ایک اپنے تمام اعزاء و اقارب، چھوٹے بڑوں اور مردوں اور عورتوں کے ہمراہ، نیست و نابود ہوجائیں؛ اور تمام مفسرین اور مؤرخین کا اتفاق ہے نیز تمام تاریخی حوالوں سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کے سوا کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لائے تھے؛ چنانچہ انفُس یا جانیں دو ہیں: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام)، ابناء دو ہیں: امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) اور نساءنا صرف ایک ہیں: سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)؛ اور مباہلے میں ان افراد کی شمولیت سے اللہ کے فرمان کی مکمل تعمیل ہوئی ہے۔ [12] قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی آیتیں اپنی شان نزول کے حوالے سے ایک فرد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن صیغۂ جمع کا استعمال کیا گیا ہے؛ جس کی مثال سورہ مجادلہ میں آیات ظہار [13] میں دیکھی جاسکتی ہے۔ [14]

زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر سے نقل کرتے ہیں:

"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) روز مباہلہ باہر آئے جبکہ سیاہ اون کی کساء (ردا، عبا یا کملی) کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے اور جب امام حسن (علیہ السلام) آئے تو آپؐ نے انہیں اپنی کساء میں جگہ دی،؛ اس کے بعد امام حسین (علیہ السلام) آئے جنہیں آپؐ نے اپنی کساء میں جگہ دی اور اس کے بعد حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) آئیں اور بعد میں علی (علیہ السلام) آئے اور پھر آپؐ نے فرمایا:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً؛ [15]

اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔"

اہل سنت کے اس عالم نے مزید لکھا ہے:

مباہلہ میں بیٹوں اور خواتین کو شامل کرنا وثوق و اعتماد کی بڑی دلیل ہے، بجائے اس کے کہ انسان تنہائی میں مباہلہ کرے۔ آپؐ نے انہیں مباہلے میں شامل کرکے جرئت کی ہے کہ اپنے عزیزوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں اور لوگوں میں اپنے نزدیک محبوب ترین افراد کو نفرین اور ہلاکت کے سامنے حاضر کیا اور آپؐ نے صرف اپنی حاضری کو کافی نہیں سمجھا۔ لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ اپنے مخالفین کے جھوٹے ہونے پر یقین کامل رکھتے تھے؛ یہاں تک کہ آپ نے اپنے جگر گوشوں کو ہلاکت و تباہی میں ڈالا بشرطیکہ مباہلہ واقع ہوجاتا۔ اور بیٹوں اور خواتین کو اس عمل کے لئے مختص کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ عزیز ترین "اہل" ہیں اور دوسروں سے کہیں زیادہ دل میں جگہ رکھتے ہیں حتیٰ کہ  ان کو کسی بھی گزند سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے؛ چنانچہ جنگجو اپنی خواتین اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے تاکہ دشمن کے سامنے استقامت کریں اور میدان سے فرار نہ ہوں۔ اسی بنا پر آیت مباہلہ میں خداوند متعال نے ابناء و نساء کو انفس [جانوں] پر مقدم رکھا تاکہ واضح کر دے کہ وہ [بیٹے اور خواتین] جانوں پر مقدم ہیں۔ اور اس کے بعد زمخشری کہتے ہیں:

          "یہ دلیل ہے اہل بیت اور اصحاب کساء (علیہم السلام) کی فضیلت کی جس سے بالا تر کوئی دلیل نہیں ہے"۔ [16]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]۔ رجوع کریں: فرهنگ جامع عربى، فارسى، ماده "بهل"؛ فرهنگ دانشگاهى، ترجمه المنجد الابجدى، مادہ "بهل"۔

[2]۔ سورہ آل عمران آیت 61۔

3۔ اقنوم یا Hypostasis ایک بنیادی اور علمی اصطلاح ہے اور عیسائی اس کو تثلیث (سہ گانہ پرستی) اور مسیح شناسی کے موضوع میں بروئے کار لاتے ہیں۔ Hypostasis ایک یونانی لفظ ہے اور اس کے دقیق اور درست معنی جوہر کے مفہوم میں ہیں اور اس سے مختلف معانی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ (ژیلسون، اتین، خدا و فلسفه، ترجمه شهرام پازوکی، انتشارات حقیقت، 1995، ص53۔) لفظ Hypostasis وہ واحد لفظ ہے جو مختلف علوم میں دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر ذات یا ذاتی ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ Hypostasis عام زبان میں عینی واقعیت (Reality) کے معنی میں آتا ہے توہم کے برعکس جیسا کہ ارسطو کے مد نظر تھا۔ نیز Hypostasis یا اقنوم ستون اور بنیاد یا راز کے معنی میں بھی آیا ہے اور عبرانی زبانی میں ملتا ہے۔ (.Livingstone, E. A., concise Dictionary of the Christian church, (oxford university press, 2006), PP.287-8) لفظ اقنوم ایک جوہر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کا تعلق ماوراء الطبیعی واقعیت سے ہے۔ ممکن ہے کہ یہ لفظ یہودی ادب سے ماخوذ ہو۔ (.Bowker, John, Concise Dictionary of World Religions, (Oxford University Press, 2005), P.260) ۔

[4]۔ خرم شاہی، بہاء الدین، قرآن کریم، توضیحات و واژه نامہ (قرآن کریم، وضاحتیں اور اصطلاح نامہ)، ذیل آیت مباہلہ. (آل عمران/61)، ص57۔

[5]. الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیت مباہلہ (آل عمران/61)۔

[6]۔ الفخر الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیت مباہلہ (آل عمران/61)۔

[7]۔ البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیت مباہلہ (آل عمران/61)۔

[8]۔ سورہ احزاب، آیت 33۔

[9]۔ قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376، ذیل آیه مباهله، ص 57۔

[10]. الزمخشری، محمود بن عمر، ج1، ص: 368۔

[11]۔ الطباطبائی، المیزان، ج3، ذیل آیه مباهله۔

[12]۔ الطباطبایی، وہی ماخذ، 1391ھ، ج 3، ص223۔

[13]۔ سورہ مجادلہ، آیات 1 تا 4۔

[14]۔ الطباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیت مباہلہ۔

[15]۔ سورہ احزاب، آیت 33۔

[16]۔ زمخشری، وہی ماخذ، ج1، صص: 369-370۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110