امام رضا (علیہ
السلام) کو ولیعہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن آپ نے شرط لگائی کہ نہ کسی کی
تقرری کریں گے اور نہ ہی کسی کو معزول کریں گے۔ اسی دور میں مامون عباسی نے کہا کہ
امام نماز عید کی امامت کریں۔ مامون نے صلاح مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔ امام
کے انکار کے باوجود اس نے اصرار جاری رکھا۔ مقصد یہ تھا کہ امام عوام کی نظر میں
بالکل ایک حکمران نظر آئیں اور لوگ اس نتیجے پر پہنچیں کہ آپ نے اپنے الٰہی اہداف
کو چھوڑ کر مامون کی اطاعت کاملہ قبول کی ہے۔ ایک ایسا منصوبہ بنایا گیا تھا کہ آج
بھی کوئی نہایت زیرک انسان اس شاہی منصوبے کو اپنے حق میں پلٹنے کی تدبیر نہیں
کرسکتا لیکن امام نے مامون کی سازش اسی کو پلٹا دی اور مصلیٰ کی طرف روانہ ہوئے تو
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی روش اپنائی
اور راستے میں مامون کے گماشتے بھی امام کی روش سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
چنانچہ مامون نے بیچ راستے آدمی بھجوا کر امام کو لوٹایا اور اپنی ساکھ کا سودا
کرکے خود نماز کی امامت کی۔
تفصیل یہ کہ امام رضا (علیہ السلام) کی طرف سے مامون کی ولایت عہدی قبول کئے جانے کے بعد عید فطر کے موقع پر مامون نے پیغام بھجوایا کہ امام نماز عید کی امامت کریں۔ امام نے فرمایا کہ میں نے ولایتعہدی قبول کرتے وقت سیاسی اور سرکاری امور میں مداخلت نہ کرنے کی شرط لگائی تھی اور نماز کی کی امامت ان ہی امور میں سے ایک ہے چنانچہ خلیفہ آپ کو نماز کی امامت سے معاف کرے۔ مامون نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کی ولایت عہدی مستحکم ہوجائے اور لوگ آپ کے فضل اور برتری سے آگاہ ہوجائیں۔
خلاصہ یہ کہ مامون نے مسلسل اصرار کیا اور امام نے انکار؛ اور آخر کار امام نے فرمایا: بہتر ہوگا کہ مجھے نماز عید کی امامت سے معاف کیا جائے لیکن اگر خلیفہ کا اصرار ہے تو میری شرط یہ ہے کہ میں نماز کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی روش کے مطابق نکلوں۔ مامون نے شرط مان لی اور افواج، سرکاری حکام اور اہلکاروں، درباریوں اور عوام سے کہا کہ عید کی صبح امام کے گھر کے سامنے اکٹھے ہوجائیں۔ صبح کے وقت عوام نے امام کے گھر اور راستے میں اجتماع کیا اور بعض لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر منتظر ہوئے تا کہ امام کو دیکھ کر سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قریب سے مشاہدہ کریں۔ گھوڑوں پر سوار فوجی بھی امام کی طرف آئے اور سب طلوع آفتاب تک امام کے گھر کے سامنے منتظر رہے۔
امام نے عید کے لئے غسل کیا اور لباس زیب تن کیا اور کتان کا سفید عمامہ سر پر رکھا جس کا ایک سرا آپ کے سینۂ مبارک پر لٹک رہا تھا اور دوسری طرف سرا آپ کے کندھے پر تھا۔ امام نے خوشبو لگائی جبکہ آپ کے ہاتھ میں ایک عصا تھا، اپنے غلاموں سے فرمایا: تم بھی میری ہیئت اپنا کر آؤ اور انہیں حکم دیا کہ آگے آگے چلیں۔
امام ننگے پاؤں گھر سے باہر آئے اور مصلیٰ کی طرف چل دیئے اور تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد سر آسمان کی طرف اٹھایا اور تکبیر کی صدا اٹھائی۔ امام نے اللہ اکبر کہا تو غلاموں نے بھی آپ کی متابعت کی۔
فوجیوں نے یہ حال دیکھا تو عجلت میں اپنے گھوڑوں سے اترے اور اپنے جوتوں کے تسمے کھول دیئے اور جو کھول نہ سکا اس نے اپنے خنجر سے تسمے کاٹ ڈالے اور سب پا برہنہ ہوکر امام کے پیچھے پيچھے روانہ ہوئے۔ امام پھر اللہ اکبر کہا تو سب نے یک صدا ہوکر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ تکیبر کی گونج اس قدر عظیم تھی کہ گویا آسمان اور در و دیوار سب امام کے ساتھ ہم صدا ہوگئے تھے۔ مرو کا شہر امام کو دیکھ کر اور آپ کی صدائے تکبیر سن کر گریہ و بکاء کی آوازوں سے لرزنے لگا۔
مامون نے حالات کی تبدیلی کو محسوس کیا اور وزیر فضل بن سہل نے بھی، کہ اگر امام رضا (علیہ السلام) اسی صورت سے مصلیٰ چلے جائیں تو لوگ ان کے شیدائی ہوجائیں گے اور فتنہ بپا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔
مامون کے لئے امام کو لوٹانا کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ کے لوٹانے کی صورت میں بھی وہی قابل نفرت ٹہرتا لیکن اس نے بدنامی اور رسوائی کو اقتدار چلے جانے کا خطرہ مول لینے پر ترجیح دی اور اپنے آدمیوں کے توسط سے آپ کو کہلوا بھیجا کہ میں نے آپ کو مشقت میں ڈال دیا اور آپ کو مزید زحمت نہیں دینا چاہتا۔ آپ یہیں سے اپنے گھر واپس چلے جائیں؛ جو شخص رسم کے مطابق لوگوں کی امامت کرتا ہے وہ آکر نماز پڑھائے گا۔ امام نے اپنے جوتے منگوائے اور پہن کر گھر واپس چلے آئے۔ لوگ اس دن انتشار کا شکار ہوئے اور نماز منظم انداز سے بپا نہ ہوسکی۔
جیسا کہ بیان کیا گیا امام رضا (علیہ السلام) کو نماز عید سے اس لئے لوٹا دیا گیا کہ کہیں آپ لوگوں کی محبتیں حاصل نہ کریں کیونکہ مصلیٰ کی طرف جاتے ہوئے عوام امام سے اپنی عقیدت کا عملی مظاہرہ کرچکے تھے؛ اور مامون اور اس کے مشیر کو خطرہ محسوس ہؤا تھا کہ اگر امام نماز کے خطبے بھی دیں تو ممکن ہے کہ عباسی ملوکیت خطرے سے دوچار ہوجائے۔ کیونکہ مامون اور اس کے مشیر اور وزیر فضل بن سہل کا منصوبہ یہ تھا کہ امام کے توسط سے نماز عید کی امامت سے اپنے حق میں تشہیری فائدہ اٹھائیں اور وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ عوام تو کیا مامون کے کمانڈر اور سپاہی اور سرکاری اہلکار بھی اس طرح آپ کے اطاعت گزار بن جائیں گے اور اپنا منصب اور عہدہ بھول جائيں گے۔ چنانچہ مامون نے حکم دیا کہ امام واپس تشریف لائیں اور یوں ممکنہ خطرات کا سد باب ہوسکے۔
یہ فراز و نشیب سے بھرپور شیعہ تاریخ کا ایک واقعہ ہے جو سنہ 201ھ میں رونما ہؤا۔ ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد 190 برس گذر چکے تھے لیکن لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نماز سے ناواقف تھے چنانچہ امام رضا (علیہ السلام) نے انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی نماز یاد دلانے کی کوشش کی لیکن ابھی چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ دین میں تبدیلی اور تغیر لانے والوں کے جانشین عباسی بادشاہ نے انہيں واپس بلوایا اور عوام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نماز نہ دیکھ سکے۔
امام رضا (علیہ السلام) کی امامت میں نماز عید کے سلسلے میں شہید مطہری کا بیان:
نماز عید پڑھنا، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہے لیکن نماز کیونکر سیرت ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نماز جمعہ اور عید فطر اور عید ضحیٰ کی نماز پڑھاتے تھے؛ یہ لوگ (خلیفہ کہلوانے والے بادشاہ) بھی عید فطر اور عید ضحیٰ کی نماز پڑھاتے تھے، لیکن نماز پڑھنے کی روش رفتہ رفتہ متغیر ہوئی تھی، سیرت بدل چکی تھی۔ عباسیوں کے دربار رفتہ رفتہ ایران کے ساسانیوں اور روم کے قیاصرہ (جمع قیصر) کے درباروں میں بدل گئے تھے۔ نہایت شاندار محلات اور دربار، خلفاء اور فوجی افسران کا لباس بہت شاندار ہؤا کرتا تھا جن پر سونے اور چاندی کے زیورات لٹک رہے ہوتے تھے۔ خلیفہ نماز کے لئے نکلتا تو خاص جلال و شکوہ اور بادشاہانہ رعب و دبدبے کے ساتھ آتا تھا۔ وہ سوار ہوتا تھا جس کے گلے میں سونے اور چاندی کے ہار ہوتے تھے؛ وہ سونے کی تلوار ہاتھ میں لیتا تھا۔ سپاہ بھی پیچھے سے آتی تھی اور لگتا تھا کہ فوجی مارچ کے لئے جارہے ہیں وہ مصلیٰ کی طرف۔ جاکر دو رکعت پڑھا کر واپس آتے تھے۔ (1)
یہی روش بدستور جاری تھی حتی کہ سنہ 201ھ میں امام رضا (علیہ السلام) خراسان تشریف لائے اور مامون کی ولایتعہدی قبول کرلی اور جب عید فطر ہوئی تو مامون نے امام سے درخواست کی کہ نماز عید کی امامت سنبھالیں۔
امام رضا (علیہ السلام) نے ولایتعہدی کی شرطوں کا حوالہ دے کر نماز کی امامت سے معذرت کرلی مگر مامون نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ آپ کے فضل وبرتری سے واقفیت حاصل کریں۔ قاصد ان دو کے درمیان مسلسل آتا جاتا رہا اور مامون نے بہت اصرار کیا تو امام نے فرمایا: میری شرط یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی طرح نماز عید کے لئے نکلوں گا۔
مامون نے شرط مان لی اور فوجی افسران اور سرکاری اہلکاروں اور عوام سے کہا کہ صبح کے وقت امام رضا (علیہ السلام) کے گھر کے سامنے اجتماع کریں۔
لوگ راستوں میں اور چھتوں پر بیٹھے تھے، خواتین اور بچے بھی تھے۔ فوجی اور سرکاری اہلکار گھوڑوں پر سوار امام کے گھر کے سامنے جمع ہوئے تھے۔
امام نے غسل کیا۔ لباس پہنا اور کتان کا سفید عمامہ سر پر رکھا جس کا ایک سرا آپ کے سینہ مبارک پر اور دوسرا سرا آپ کے شانے پر لٹک رہا تھا۔ امام نے تھوڑی سی خوشبو لگائی ہوئی تھی اور عصا ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ اور پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ وہ بھی وہی کریں جو آپ کرچکے تھے۔ وہ امام سے آگے آگے چلے۔
امام نے شلوار کے پائینچے نصف ساق (آدھی ٹانگوں) تک چڑھائے ہوئے تھے اور آستینیں بھی چڑھائی ہوئی تھیں اور اسی حالت میں مصلیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد آسمان کی طرف سر اٹھا کر تکبیر کا نعرہ لگایا تو قریبی افراد نے بھی نعرہ تکبیر سے آپ کا ساتھ دیا۔ (2)
امام نے خضوع و خشوع کے ساتھ گھر سے نکل کر اونچی آواز سے شروع کیا:
"اللَّهُ اکْبَرُ، اللَّهُ اکْبَرُ، اللَّهُ اکْبَرُ عَلى ما هَدانا وَلَهُ الشُّکْرُ عَلى ما اوْلانا"،
لوگ برسوں سے ان اذکار کو نہیں سن سکے تھے۔ امام گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے دروازے پر پہنچـے تو عباسی فوجی افسران اور قبائل کے عمائدین نے ـ جنہیں امام کی اس ہیئت نماز کی توقع نہ تھی ـ بےاختیار اپنے آپ کو گھوڑوں سے گرایا اور گھوڑوں کو اپنے حال پر چھوڑا۔ (3)
چونکہ نماز کے لئے پا برہنہ ہوکر نکلنا چاہئے اور فوجی افسران نے فوجی بوٹ پہنے ہوئے تھے جنہیں کھولنا بہت آسان نہیں ہے چنانچہ ہر فوجی نے چاقو یا کوئی تیز حربہ تلاش کیا اور بوٹ پھاڑ دیئے [تاکہ امام سے پیچھے نہ رہیں اس سنت نبوی میں] اور ننگے پاؤں امام کی قیادت میں روانہ ہوئے۔
امام گھر کے مرکزی دروازے پر پہنچے اور تکبیر کہی تو لوگوں نے بھی تکبیر کہی اور لگتا تھا کہ دیواریں بھی تکبیر کہہ رہیں ہیں اور امام کا ساتھ دے رہی ہیں۔
لوگوں نے ابوالحسن الرضا (علیہ السلام) کو دیکھا اور آپ ک صدائے تکبیر سنی تو مرو کا شہر سراسر شور و غوغا میں تبدیل ہؤا۔ اس ماجرا کی خبر مامون کو ملی، تو فضل بن سہل ذوالریاستین نے کہا: اگر امام رضا (علیہ السلام) اسی حالت میں نماز کے مقام پر پہنچیں تو لوگوں کو اٹھان کے لئے آمادہ کریں گے اور ہمیں تو بس اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے۔ جلدی سے کسی کو امام کی طرف روانہ کریں تاکہ وہ واپس آجائیں۔
اس کے مامون نے امام کو کہلوا بھیجا کہ:
"ہم نے آپ کو رنج و زحمت میں ڈالا، ہم ہرگز نہيں چاہتے کہ آپ کو مزيد تکلیف اور زحمت پہنچے۔۔۔۔
چنانچہ امام نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر گھر واپس تشریف لائے اور اس روز منظم نماز نہ پڑھائی جاسکی۔ (4)
مامون نے امام کو نماز عید سے واپس کیوں بلایا؟
ضمنی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مامون کو جب معلوم ہؤا کہ عوام تو کیا حکومت کی پوری مشینری بھی امام رضا (علیہ السلام) کا ساتھ دے رہی ہے اور سب کے سب اپنے آپ کو عصر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں پا رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امامت میں نماز ادا کرنے جارہے ہیں۔ امام ننگے پاؤں مصلیٰ کی طرف جارہے ہیں، سادگی اور بندگی اور خضوع کی انتہا ہے چنانچہ سب امام کی صداؤں میں محو ہوچکے تھے۔ لوگ بندگی کا یہ عروج اور خشوع کی یہ انتہا دیکھ کر گریہ و بکاء کررہے تھے اور وہ مامون کو تو کیا اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھے۔ چنانچہ دنیا پرست خلیفہ اور معنویت سے فارغ مشیروں نے خطرہ محسوس کیا۔ انہيں توقع نہ تھی کہ لوگ فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے اتنی محبت کرتے ہونگے اور ان کی سازش اس انداز سے ناکام ہوگی۔ وہ تو امام کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کا ارادہ کیا ہوئے تھے لیکن اب انہيں اپنی کشتی ڈوبتی نظر آرہی تھی۔
امام کے ساتھ موجود لوگوں نے جب آپ کی اس الٰہی کیفیت کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ امام منقلب ہوئے ہیں اور اپنا وجود اٹھا کر بارگاہ الٰہی میں پیش کرنے جا رہے ہیں اور چہرہ مبارک پر اشک بندگی رواں ہے اور دنیا و ما فیہا سے بیگانہ ہوکر بلند آواز سے "الله اکبر، الله اکبر علي ما هدانا وله الشکر علي ما اولانا" کا شعار دے رہے ہیں تو وہ بھی دہرانے لگے اور وہ بھی رونے لگے۔ وہ بادشاہی روایات کے مطابق اعلیٰ ترین لباس زیب تن کئے ہوئے تھے اور اصیل گھوڑوں پر سوار تھے، لیکن اچانک انہيں ایک نئی ہیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا جو ہیبت سلطانی سے مختلف تھی اور سلاطین کو بھی اس کے سامنے جھکنا پڑتا تھا چنانچہ انہوں نے اپنے آپ کو گھوڑوں سے گرایا اور جوتے خنجروں سے پھاڑ دیئے۔ لوگ جو چھتوں پر تماشا دیکھنے بیٹھے تھے وہ بھی اتر آئے اور نمازیوں کے قافلے میں شامل ہوئے یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے ظاہر پرست حکمران خوفزدہ ہوئے۔
ہمیں کسی جگہ بھی کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ امام نماز عید کے دوران ہی مامون کی حکومت کا خاتمہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن مکڑی کے جال سے بھی کمزور حکومت کی عمارت کی بنیادی ہلنے لگی تھیں جو ایک فطری امر تھا کیونکہ خلفا کہلوانے والے ان بادشاہوں کی حکومت نہ تو عوامی حکومت تھی اور نہ ہی الٰہی ولایت تھی چنانچہ ان کا سہارا نہ عوام تھے اور نہ خدا اور جب بھی عوام خدا کی طرف متوجہ ہوتے اور خدا پرستی میں محو ہوکر اپنے آپ کو دنیاوی حکومتوں سے بے نیاز پاتے تو ان حکمرانوں کو خوف و خطر محسوس ہوتا تھا اور کانپ جاتے تھے۔
یہ اس روش کے معنی ہیں جس سے مامون خائف ہوا تھا۔ مامون بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے تحت نماز عید فطر اور نماز عید ضحیٰ پڑھایا کرتا تھا لیکن جب امام نے نماز پڑھانے کا تہیہ کیا تو نئی روش سامنے آئی جو نئی تو نہ تھی بس لوگ اسے بھول چکے تھے، ورنہ یہ وہی روش تھی جو خدا کے فرمان پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنائی تھی۔ مامون کی نماز وہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) والی نماز تھی جس کی شکل و صورت اور روش بدلتی رہی تھی اور اب وہ مامونی اور عباسی روش میں بدل چکی تھی۔ چنانچہ امام رضآ (علیہ السلام) نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کے لئے تیار ہوں لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں نماز کے لئے اسی روش سے نکلوں گا جس روش سے میرے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اورمیرے دادا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نکلا کرتے تھے اور اس روش سے نہیں نکلوں گا جس روش سے تم اور تمہارے باپ دادا نکلتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس روش کو مامون برداشت نہ کرسکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مجموعۂ آثار استاد شہید مرتضیٰ مطہری، ج17۔
2۔ شیخ مفید، الارشاد، جلد2۔
3۔ مجموعۂ آثار استاد شہید مرتضیٰ مطہری، ج17۔
4۔ روایت علامہ سید محسن امین العاملی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون پہلی سنہ 2013ع میں ابنا کی ویب گاہ میں شائع ہؤا تھا۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110