تاریخ دوسری فاطمہ کا انتظارکررہی ہے۔ انتظار کی گھڑی گذرجاتی ہے اور خانہ خورشید بھینی بھینی خوشبو سے بھرجاتا ہے۔ فاطمہ کے حضورِ جدید کی ٹھنڈک مدینہ کی فضاؤں پر چھا جاتی ہے اور کوثر سیدہ، وہی چشمہ کوثر پھوتنے لگتا ہے۔ میں آپ کی حرم کی باغوں میں پناہ لیتا ہوں اور قدرے اس ملکوتی سائے میں سستا لیتا ہوں۔ نہر استجابت کی کنارے بیٹھ جاتا ہوں اور خود ایک قطرہ بن جاتا ہوں اور آپ کے زائرین کے اشکوں کے دریا کے شفاف پانیوں میں آپ کی ضریح مقدس کے گلے میں عقیدت کے پھولوں کی مالا ڈال دیتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس روزنوں میں سے آپ کی قبر مطہر کا نظارہ کرتا ہوں۔ یقین نہیں آتا! کیا میں اتنی آسانی سے آپ کی زیارت کے لئے آسکا ہوں! جبکہ آپ کی زیارت مدینہ کی کوثر گمشدہ کی زیارت کی ہم رتبہ ہے۔
والدین ماجدین
آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر (علیہما السلام) اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں جو امام رضا (علیہ السلام) کی بھی والدہ ماجدہ ہیں۔ (1)
ولادت تا ہجرت
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے یکم ذی القعدہ 173ھ میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس عالم میں قدم رنجہ فرمایا اور 28 سال کی مختصر سی زندگی میں 10 (2) یا 12 (3) ربیع الثانی 201ھ کو شہر قم میں دار فانی سے وداع کیا۔
اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن اور بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ عبادت، زہد، پارسائی، تقویٰ، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الٰہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ سب برگزیدہ بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و نا خدا تھے۔
علم و دانش کا سرچشمہ
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقویٰ اور اخلاقی فضائل کا سرچشمہ تھا۔ جب آپ (سلام اللہ علیہا) کے والد ماجد حضرت موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا (علیہ السلام) کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلیٰ علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہوگئے۔
ابن صباغ مالکی کہتے ہیں:
"ابوالحسن موسیٰ المعروف (کاظم)۔ کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے؛ اور وہ اہلیان عراق کے ہاں "باب الحوائج الی اللہ" کے عنوان مشہور ہیں کیونکہ آپ سے توسل کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوائج اور ضروریات بر آتی ہیں اور آپ سے توسل ان کے مقاصد کے حصول میں نتیجہ خیز ہؤا کرتا ہے"۔ (4)
اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کے فرزندوں میں امام رضا (علیہ السلام) کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے اونچا ہے۔ یہ اعلیٰ مقام حضرت سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں ائمہ (علیہم السلام) کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے۔ اور اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی مانند (عالمہ غیر مُعَلَّمہ)۔ ہیں۔ (عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے)۔
فضائل کا مظہر
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) فضائل و مراتب و مقامات عالیہ کا مظہر ہیں۔ معصومین کی روایات آپ (سلام اللہ علیہا) کے لئے نہایت اونچے مقامات و مراتب کی دلیل ہیں۔ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے رے سے آنے والے ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"اِنَّ لِلّهِ حَرَما وَهُوَ مَكَّةُ، ألَا وَإنَّ لِرَسُولِ اللهِ حَرَما وَهُوَ الْمَدينَةُ، أَلَا وَإنَّ لِأَميرِ الْمُؤمِنينَ حَرَما وَهُوَ الكُوفَةُ، ألَا وَإنَّ قُمَّ الكُوفَةُ الصَّغِيرَةُ. ألَا إِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا إِلَى قُمَّ تُقْبَضُ فِيهَا امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِي اسْمُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُوسَى وَتُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا شِيعَتِي الْجَنَّةَ بِأَجْمَعِهِمْ؛ (5)
"جان لو کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کی آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔ میری اولاد میں میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ بنت موسیٰ (الکاظم) ہے، قم میں رحلت فرمائیں گی اور ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے"۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا علمی مقام
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بہت اونچا ہے۔
"روایت ہے کہ ایک روز شیعیان محمد و آل محمد (ص) کا ایک گروہ حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کی ملاقات کے لئے مدینہ منورہ مشرف ہؤا۔ چونکہ امام (علیہ السلام) سفر پر تشریف لے گئے تھے اور یہ لوگ آپ سے سوالات پوچھنے آئے تھے لہذا انہوں نے اپنے سوالات سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے سپرد کئے ۔ جو ابھی نوعمر بچی ہی تھیں ۔ یہ لوگ دوسرے روز ایک بار پھرامام(ع) کی در گاہ پر حاضر ہوئے مگر امام(ع) ابھی نہیں واپس نہیں آئے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے سوالات واپس مانگے۔ مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے ان کے جوابات بھی تحریر کر رکھے تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنے سوالات کے جوابات کا مشاہدہ کیا، بہت خوش ہوئے اور نہایت تشکر اور امتنان کے ساتھ مدینہ سے رخصت ہوئے۔ اتفاق سے راستے میں ہی ان کا سامنا امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے ہؤا اور انہوں نے اپنا ماجرا امام (علیہ السلام) کو کہہ سنایا۔ امام(ع) نے سوالات اور جوابات کا مطالعہ کیا اور فرمایا: باپ اس پر فدا ہو ـ باپ اس پر فدا ہو ـ باپ اس پر فدا ہو"۔ (6)
قم کی تقدس کا راز
متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تأکید ہوئی ہے۔ امام صادق (ع) نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:۔ امام (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"ألا إنَّ حَرَمِي وَحَرَمُ وُلدِي بَعدِي قُمَ؛ (7)
آگاہ رہو کہ میرا حرم اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم قم ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں مذکور ہؤا، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"اور حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں"۔
امام صادق (علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:
"میری اولاد میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے"۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق (علیہ السلام) سے سنی تھی۔ یہ حدیث قم کے تقدس کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف ۔ جو روایات سے ثابت ہے ـ ریحانۃ رسول(ص)، کریمہ اہل بیت (سلام اللہ علیہا) کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس سرزمین میں شہادت پاکر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنا دیا ہے۔
سیدہ نے بهی قم کا انتخاب کیا
امام رضا (علیہ السلام) کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی رضا(ع) کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کی نیت سے عازم سفر ہوئیں۔ ساوہ پہنچیں جہاں کے لوگ اس زمانے میں اہل بیت (علیہم السلام) کے مخالف تھے لہٰذا انہوں نے حکومتی کارندوں کے ساتھ مل کر قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجے میں قافلے کے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۔ (8)
سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) غم و الم کی شدت سے علیل ہوگئیں اور ایک روایت کی مطابق ساوه میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا (9) جس کی وجه سے آپ بیمار پڑ گئیں اور محسوس کیا کہ اب خراسان نہ جا سکیں گی اور اب زیاده دیر تک زنده بهی نہیں رہیں گی چنانچہ آپ نے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: "قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے"۔ (10) اور یوں آپ وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔
اگر ہم ان حقائق کو پیش نظر رکھیں کہ "دشمنان اہل بیت(ع) نے سیدہ(س) کے قافلے پر حملہ کیا، قافلے کے کئی افراد نے جام شہادت نوش فرمایا، حالات بہت نامساعد ہوئے، اور ان ہی حالات میں جبکہ آپ علیل بھی تھیں، ساوہ سے قم کی طرف روانہ ہوئیں، تو یہ فرض قبول کرنا ممکن ہو جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح، عباسی جلادوں کے حکم پر مسموم کیا گیا تھا۔
ان تمام حقائق کے باوجود، اہلیان قم کے لئے سیدہ کی تشریف آوری کی خبر بہت خوشایند تھی، چنانچہ بزرگان قم کو یہ مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، موسیٰ بن خزرج الاشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (سلام علیکم) اہلیان قم کے عشق اہلبیت(ع) سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں اور موسیٰ بن خزرج کے ذاتی گھر میں نزول اجلال فرمایا۔ (11)
اداس شام
بی بی مکرمہ نے 17 دن اس شہر امامت و ولایت میں گذارے، مسلسل مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اور اپنی زندگی کے آخری ایام بھی خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ آخر کار وہ ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت اور دختر فاطمہ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں، سنہ 201ھ میں نجمۂ عصمت و طہارت کا غروب ہؤا تو سب بحرِ حزن و ملال میں ڈوب گئیں۔ لقاء الله کے لئے بے چین روح قفس خاکی سے بسوئے افلاک پرواز کرگئی۔ سیدہ نے دعوت حق کو لبیک کہہ کر عاشقان امامت و ولایت کو سوگوار کر دیا۔
سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحۂ غروب تک۔
سلام و درود ہو فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی روح مقدس پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سرزمین کو نورانیت بخشی۔
سلام ہو دنیا کی تمام جہانوں کی خواتین کی سیدہ حضرت فاطمہ زہراء اور مہر و محبت کے پیامبروں کی لاڈلی، دخترِ سرداران جوانان جنت پر۔
اے فاطمہ! روز قیامت ہماری شفاعت فرما، کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام و منزلت کی مالک ہیں۔
ہاں بی بی معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے سیدہ ثانی زہراء حضرت زینبِ عُلیا (سلام اللہ علیہا) کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقیقی پیشواؤں کی حقانیت کے سلسلے میں امامت کی سند پیش کردی اور مأمون کے چہرے سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی۔ قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت از بام کردیا۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین (علیہ السلام) کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا۔ اسی اثناء میں تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے انصافی کے خلاف قیام کا بہترین نمونہ اور ہر زمانے میں پیروان علی (علیہ السلام) کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے۔ آپ (س) جیسوں کی موت شہادت نہ ہو تو کیا ہو؟
آپ(س) نے خاندان رسالت کے چند افراد اور محبان اہل بیت(ع) کے ہمراہ مدینہ سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں حقیقی اور خالص محمدی(ص) اسلام کے تربیت یافتہ جیالوں نے مادی و طاغوتی طاقتوں کے سامنے حق کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا:
"إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَأسْتَعظِمُ تَقْريعَكَ وَأسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ؛
[اے یزید!] بے شک میں تجھے چھوٹا اور ذلیل سمجھتی ہوں، اور تیری شدید سرزنش کرتی ہوں اور تجھ پر بہت زیادہ سرزنش کرتی ہوں"۔ (12)
رسم تدفین
شفیعۂ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ کو غسل دیا گیا۔ کفن پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی مشایعت کی گئی۔ لیکن دفن کے وقت مَحرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے۔ آخر کار ارادہ کیا کہ ایک بڑی عمر کا بزرگ اس عظیم کام کو سر انجام دے، لیکن وہ بزرگ اور دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومۂ اہل بیت (سلام اللہ علیہا) کے جنازے کو ہر کوئی سپرد خاک نہیں کرسکتا تھا۔
بہرحال لوگ اس اثناء مطلوبہ بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ اچانک انہوں نے دو سواروں کو آتے ہوئے دیکھا وہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے تھے؛ وہ جنازے کے نزدیک پہنچ کر گھوڑوں سے اترے اور کچھ کہے سنے بغیر نماز جنازہ پڑھی اور اس ریحانۂ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے پیکر اطہر کو داخل سرداب دفن کردیا۔ اور کسی سے گفتگو کئے بغیر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے جبکہ حاضرین میں کوئی بھی انہیں نہ پہچان سکا۔ (13)
بعض محققین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ دو سوار امام رضا اور امام محمد تقی الجواد (علیہما السلام) ہو سکتے ہیں؛ (14) دور معاصر کے عالم دین اور مرجع تقلید حضرت آیة اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی (رحمہ اللہ) نے بھی کہا ہے کہ: یہ امر بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لئے قم تشریف لائے اور چلے گئے۔
سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی تدفین کے بعد کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا جو ایک مدت تک باقی رہا۔ مگر حضرت زینب بنت امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) قم تشریف لائیں تو انہوں نے مقبرے پر اینٹوں کا قُبّہ تعمیر کرایا۔ (15)
زیارت حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) روایات کے منظر سے
دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے۔ خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب گوارا سے بھرا ہؤا شفاف جام ہے؛ اور حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کی بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خوداعتمادی کا درس دیتی ہے، اس ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچاتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے۔ کریمہ اہل بیت (سلام اللہ علیہا) کے مزار کی زیارت اس امر کا باعث ہوتی ہے کہ زائر اپنے آپ کا خداوند صمد کے سامنے نیازمند اور محتاج پاتا ہے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرتا ہے، غرور و تکبر کی سواری ۔ جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے ۔ سے نیچے اتر آتا ہے اور حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دیتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ(س) کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کے سلسلے میں ائمۂ معصومین (علیہم السلام) سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
1ـ قم کے نامور محدث، سعد بن سعد اشعری قمی کہتے ہیں: "میں امام ہشتم حضرت علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی بارگاہ میں حاضر ہؤا تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
اے سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے۔ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو؛ کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کررہے ہیں؟ فرمایا:
"من زارها فله الجنّة؛ (16)
جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے"۔
2ـ امام جعفر صادق (علیہ السلام) اس بارے میں فرماتے ہیں:
"من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة؛ (17)
"جو کوئی ان کی زیارت کرے جنت اس پر واجب اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے"۔
3۔ اور ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:
"إِنَّ زِيَارَتَهَا تَعْدِلُ الْجَنَّةَ؛ (18)
ان کی زیارت بہشت کے برابر اور ہم پلہ ہے"۔
4 ۔ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة؛ (19)
جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے"۔
5 ۔ نیز فرمایا:
"من زار المعصومة بقم کمن زارني؛
جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے"۔
6ـ ابن الرضا امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) نے فرمایا:
"من زار قبر عمّتي بقم فله الجنة؛ (20)
"جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے"۔
7۔ ایک مؤمن امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کے لئے مشہد گیا اور وہاں سے ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا۔ سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کی اور امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے گذرتے اور میری بہن کی زیارت کرتے؟"۔ (21)
8۔ مولیٰ حیدر بن محمد خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آ سکے رے میں میرے بهائی (حمزه) کی زیارت کرے یا قم میں میری بہن معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا"۔ (22)
گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی عظمت کی دلیل ہیں مگر این روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں؛ جیسے: جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، زائر کا بہشت کا مالک ہوجانا، جو لفظ (له) سے سمجها جاتا ہے اور ان کی زیارت کا حضرت رضا (علیہ السلام) کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا (علیہ السلام) کا اس شیعہ بهائی سے بازخواست کرنا، جس نے حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت نہیں کی تهی۔
صرف ایک امام نے نہیں بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام جعفر صادق، امام علی رضا و امام محمد تقی الجواد (علیہم السلام) اور دلچسپ امر یہ ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) نے سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے، اور آپ (س) کے والد امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کی ولادت سے بهی پہلے آپ کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے۔
دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت ہے جس میں حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔
زید شحام (زید بن محمد ازدی کوفی) نے امام صادق (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ :
"یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا:
جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی " كَمَن زَارَ رَسُولَ اللهِ (صلی اللہ علیہ و آلہ)؛ گویا اس نے رسول خدا (صلی الله و علیہ و آلہ) کی زیارت کی ہو"۔
چنانچہ جس نے سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و الہ) کی زیارت کی ہے۔ اور پهر حضرت رضا (علیہ السلام) ـ جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قراردیتے ہیں ـ فرماتے ہیں کہ :
"أَلَا فَمَنْ زَارَنِي وَهُوَ عَلَى غُسْلٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ؛ (23)
"آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کرکے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها"۔
ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی، بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے۔
دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا (علیہما السلام) نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ(س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے۔ اور ہم آپ(س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ
"يا فاطِمَة اِشْفَعي لي فِي الْجَنَّةِ، فَإِنَّ لَكِ عِنْدَ اللّْهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْن؛
"اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے"۔
امام صادق (علیہ السلام) کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعہ سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارت نامے میں ہے کہ "آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے اللہ کے ہاں ایک خاص شأن و منزلت ہے"۔
علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیدہ(س) کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔
زیارت اور اس کا فلسفہ
قاموس شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ، کلمہٴ زیارت ہے۔ اسلام میں جن آداب پر بہت زیادہ تأکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت (علیہم السلام) اور ان کی اولاد امجاد کی قبور مبارک کی زیارت کے لئے سفر کرنا ہے۔ حدیثوں میں رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی جانب سے اس امر پر بڑی تاکید ہوئی ہے:
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"من زارني أو زار أحدا من ذريتي زرته يوم القيامة، فأنقذته من أهوالها؛ (24)
جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا"۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"مَن أتى قَبرَ الحُسَينِ عليه السلام عارِفا بِحَقِّهِ، كانَ كَمَن حَجَّ مِئَةَ حَجَّةٍ مَعَ رَسولِ اللّهِ صلى الله عليه وآله؛ (25)
جو حق معرفت ادا کرکے امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کرے تو گویا اس نے 100 سو حج رسول اللہ کے ساتھ بجا لائے ہیں"۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"امام حسین (علیہ السلام) آپ کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے"۔ (26)
امام رضا (علیہ السلام) نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا :
"جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا"۔ (27)
امام علی نقی الہادی (علیہ السلام) نے فرمایا:
"جس نے عبد العظیم [الحسنی] (علیہ السلام) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کی ہے"۔ (28)
امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) نے فرمایا:
"اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے بابا امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کرے"۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل، ثوابوں اور انعامات کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہے؟
زیارت کا فلسفہ در حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھایا۔ معصومین (علیہم السلام) کی زیارت کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ جن کی زیارت کی جاتی ہے، یہ زیارت ان کی معرفت پر استوار ہو اور تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جاسکے گی۔
یہ بزرگ ہستیاں، بنی نوع انسان کے لئے نمونہ اور مثال ہیں؛ ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنا پڑتی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا پڑتا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنا پڑتی ہے تا کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا مأثور زیارتنامہ
ہر بارگاہ میں ملاقات (زیارت) کا ایک خاص دستور ہوتا ہے۔ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایات سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ زیارت کے لئے ان نورانی جملوں کی تلاوت کرکے رشد و کمال کی راہ میں جناب سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) سے الہام حاصل کرسکیں اور بحرِ رحمت حق کے ساحل سز اپنی صلاحیت اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی چن سکیں۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لئے ائمہ معصومین (علیہم السلام) سے مأثورہ زیارت نامہ وارد ہؤا ہے۔ سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی بعد آپ(س) پہلی بی بی ہیں جن کے لئے ائمۂ اطہار (علیہم السلام) کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہؤا ہے۔ تاریخ اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہا) کی والدہ سیدہ آمنہ بنت وہب، (سلام اللہ علیہا) امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی والدہ سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا)، سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد (سلام اللہ علیہا)، جناب ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین (سلام اللہ علیہا)، شریکة الحسین ثانی زہراء حضرت زینب (سلام اللہ علیہا)، امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی صاحبزادی سیدہ نفیسہ (سلام اللہ علیہا)، امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) کی بہن سیدہ حکیمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی (عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّرِیف) کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہا) جیسی عظیم الشان اور عالی مرتبت بیبیاں ہو گذری ہیں جن کے مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارت نامہ نقل نہیں ہؤا ہے؛ تاہم سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے زیارت نامہ نقل ہؤا ہے جو آپ کی عظمت کی نشانی ہے؛ تا کہ شیعیان و پیروان اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت پاکدامنی، حیاء، تقویٰ و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی آپ(س) کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور آپ(س) ہماری شفاعت فرمائیں گی۔
امام رضا (علیہ السلام) اور لقب "معصومہ"
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) جنتی خاتون، عبادت اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں ڈوبی ہوئی، بدیوں سے پاک اور عالم خلقت کا شبنم ہیں۔ شاید اس بی بی کو لقب (معصومہ) اسی لئے عطا ہؤ ہے کہ اماں زہراء (سلام اللہ علیہا) کی عصمت آپ(س) کے وجود میں جلوہ گر ہوگئی تھی۔ بعض روایات کی مطابق یہ لقب حضرت رضا (علیہ السلام) نے اپنی ہمشیرہ مطہرہ کو عطا فرمایا تھا۔ جیسا کہ بلند اندیش اور پاک سیرت شیعہ فقیہ علامہ محمد باقر بن محمد تقی المجلسی (رحمہ اللہ) روایت کرتے ہیں کہ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَني؛ (29)
"جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا کہ اس نے میری زیارت کی ہے"۔
کریمة اہل بیت (علیہم السلام) یہ لقب امام معصوم کی جانب سے سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو عطا ہؤا ہے جو آپ (س) کی مرتبت کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔
انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا سکتا ہے، یہ ذات اقدس الہی کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
"يَا بْنَ آدَمَ، أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْءِ كُنْ فَيَكُونُ، أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ، أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْءِ كُنْ فَيَكُونُ؛ (30)
"اے فرزند آدم میں کسی چیز سے کہتا ہوں کہ ہو جا! تو وہ ہو جاتی ہے [اور وہ وجود میں آتی ہے]، تو بھی کرتے رہنا جو میں تجھے حکم دیتا ہوں، [اور میرے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے رہنا]؛ میں تجھ کو ایسا بنا دوں گا کہ جب کہے گا کہ "ہو جا"، وہ شیئے ہو جائے گی"۔
امام صادق علیہ اسلام نے بھی فرمایا :
"الْعُبُودِيَّةُ جَوْهَرَةٌ كُنْهُهَا الرُّبُوبِيَّةُ؛ (31)
یعنی خدا کی بندگی ایک جوہر ہے جس کی حقیقت ربانیت ہے [اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے]"۔
اولیاء اللہ (علیہم السلام) جنہوں نے طاعت و بندگی کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا؛ وہ اپنی اس با برکت عارضی زندگی میں بھی اور دنیاوی زندگی کے بعد بھی کرامات و عنایات کا لا زوال سرچشمہ ہیں؛ اور یه سب ان کی پاکیزہ سیرت و حیات کا ثمرہ ہے۔
قم المشرفہ میں آستانۂ فاطمیہ قدیم الایام سے ہزاروں کرامات و عنایات ربانیہ کا مرکز و معدن رہا ہے؛ کتنے نا امید قلوب خدا کے فضل و کرم سے پر امید ہوئے ہیں، کتنے تہی داماں، رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر چکے ہیں؛ اور کتنے ٹهکرائے ہوئے اس در پر آکر کریمۂ اہلبیت (سلام اللہ علیہا) کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوئے اور خوشحال و شادماں ہوکر لوٹے ہیں اور اولیاء حق کی ولایت کے سائے میں ایمان محکم کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی بنیاد رکهی ہے۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی روح کی عظمت اور خداوند متعال کے فیض اور فضل و کرم کے منبع بے کراں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں که سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کریمہ اہل بیت ہیں۔
اب ہم دیکهتے ہیں که کریمۂ اہل بیت (علیہم السلام) کا لقب کس طرح ظاہر ہؤا؟ یه لقب در حقیقت ایک معاصر بزرگ مرجع تقلید کے والد بزرگوار کی رؤیائے صادقہ کے ذریعے ظاہر ہؤا ہے۔ خواب کچھ یوں ہے: "آیت اللہ العظمی سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے والد ماجد مرحوم آيت اللّہ سيّد محمود مرعشى نجفى (رحمہما اللہ)، حضرت سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی قبر شریف کا مقام معلوم کرنے کی سعی وافر کررہے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایک مجرب ختم کا تعین کیا تا کہ اس طرح معلوم ہو جائے کہ ام ابیہا (سلام اللہ علیہا) کی گمشدہ قبر کہاں ہے؟ انھوں نے اپنا ذکر چالیس راتوں تک جاری رکھا۔ چالیسویں شب ختم مکمل کرلی اور دعا و توسل بسیار کے بعد آرام کرنے لگے تو آنکھ لگتے ہی عالم خواب میں حضرت امام محمد باقر(ع) يا حضرت امام جعفر صادق (ع) کی زیارت کا شرف حاصل کیا"۔
امام (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا:
"عَلَيْكَ بِكَرِيمَةِ اَھل ِ الْبَيْتِ؛
یعنی کریمہ اہل بیت کی زیارت کی پابندی کرو"۔
انھوں نے سوچا کہ گویا امام (علیہ السلام) حضرت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کی سفارش کررہے ہیں۔ چنانچہ عرض کیا:
"میں آپ پر قربان جاؤں میں نے ختم کا چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ میں حضرت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کی قبرکے صحیح مقام کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "میری مراد حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی قبر شریف ہے"؛ اور مزید فرمایا: بعض مصلحتوں کی بنا پر خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی قبر شریف مخفی ہی رہے۔ اگر مشیت الٰہی یہ ہوتی کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کی قبر ظاہر ہو، تو خدا کی طرف سے اس کے لئے جو جلال و جبروت مقدر ہوتی وہی جلال و جبروت خدا نے حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے مقدر فرمائی ہے ہے"۔
آیت اللہ مرعشى نجفى جاگ اٹھے تو فورا حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کی غرض سے قم روانہ ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ نجف سے قم تشریف لائے"۔ (32)
اسی بنا پر شیعہ فقہاء، دانشور اور علماء کی زبان میں حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) "کریمۂ اہل بیت" کے لقب سے مشہور ہیں۔
دیگر القاب :
سیدہ معصومہ (س) کے دو زیارتناموں میں جو اسماء و القاب بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں:
1- طاہرہ (پاک و پاکیزہ)۔
2- حمیدہ (جس کی ستائش اور تعریف ہوئی ہے)۔
3- بِرّہ (نیکوکار)۔
4- رشیدہ (ہدایت یافتہ و عاقلہ)۔
5- تَقِيّہ (پرہیزگار)۔
6- رضّیہ (خدا سے راضی)۔
7- مرضیّہ (ان سے خدا راضی و خوشنود ہے)۔
8- سیدہ صدیقہ (بہت زیادہ سچی خاتون)۔
9- سیدہ رضیّہ مرضّیہ وہ خاتون جو خدا سے راضی ہیں اور خدا بھی ان سے راضی و خوشنود ہے۔
شافعۂ روز جزا حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا)
بے شک شفاعت کا والاترین اور بالاترین مقام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مقام ہے اور آپ(ص) کا مقام قرآن مجید میں "مقام محمود" قراردیا گیا۔ (33)
اسی طرح خاندان احمد مختار (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں دو خواتین کے لئے شفاعت مقرر ہے، جو بہت ہی وسیع اور عالمگیر ہے اور پورے اہل محشر بھی ان دو عالی مرتبت خواتین کی شفاعت کے دائرے میں داخل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ شفاعت کے لائق ہوں۔
یہ دو عالیقدر خواتین صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور شفیعۂ روز جزا، حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ہیں۔ حضرت ام الحسنین (سلام اللہ علیہا) کے مقام شفاعت جاننے کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ شفاعت آپ(س) کا حق مہر ہے اور جب بحکم آلٰہی آپ(س) کا نکاح قطب عالم امکان امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) سے ہورہا تھا، قاصد وحی نے خدا کا بھیجا ہؤا شادی کا پیغام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حوالے کیا۔ وہ تحفہ ایک ریشمی کپڑا تھا جس پر تحریر تھا:
"امت محمد (ص) کے گنہگاروں کی شفاعت خداوند عالم نے فاطمہ زہراء (س) کا حق مہر قرار دیا"۔
یہ حدیث اہل سنت کے منابع میں بھی نقل ہوئی ہے۔
سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی بعد کسی بھی خاتون کو شفیعۂ روز محشر حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا مقام شفاعت حاصل نہیں ہے۔ اسی لئے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں، میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ ہے ۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے"۔
حضرت امام رضا (ع) سے حضرت معصومہ (س) کی محبت
عرصہ 25 برس تک امام رضا (علیہ السلام) حضرت نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) کی اکلوتے فرزند تھے۔ اور 25 سال بعد نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) کے دامن مبارک سے ایک ستارہ طلوع ہؤا جس کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ امام(ع) نے اپنے والاترین احساساتِ نورانی اپنی کمسن ہمشیرہ کے دل کی اتہاہ مین ودیعت رکھ لین۔ یہ دو بھائی بہن حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا فراق ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ زبان ان دو کے درمیان محبت کی گہرائیاں بیان کرنے سے قاصر ہے۔
امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے ایک معجزے کے دوران ۔ جس میں سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا بھی کردار ہے ۔ جب نصرانی اس کم سن امامزادی سے پوچھتا ہے:
"آپ کون ہیں؟۔
تو آپ (س) جواب دیتی ہیں:
" أنا المَعصُومَةَ أُختُ الرِّضَا؛
"میں معصومہ ہوں امام رضا (علیہ السلام) کی ہمشیرہ"۔ (34)
سیدہ(س) کے اس بیان سے دو چیزوں کا اظہار ہوتا ہے: ایک یہ کہ آپ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھیں۔ دوسری یہ کہ آپ امام رضا (علیہ السلام) کو اپنی شناخت کی علامت سمجھتی تھیں اور امام(ع) کی بہن ہونے کو اپنے لئے اعزاز اور باعث فخر سمجھتی تھیں۔
خواتین کی سرور
فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) انفرادی اور ذاتی شخصیت و روحانی کمالات کے لحاظ سے امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) کی اولاد میں علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کے بعد دوسرے درجے پر فائز تھیں۔ دوسرے لفظوں میں دیگر اپنے بھائی بہنوں میں آپ کا درجہ امام رضا (علیہ السلام) کے بعد دوسرا تھا۔ رجالی مصادر کے حوالے سے امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی 18 بیٹیاں تھیں اور حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) سب کی سرور تھیں، یہی نہیں بلکہ بھائیوں میں بھی امام رضا (علیہ السلام) کے بعد کوئی ان کا ہم پلہ نہیں تھا۔
محدث بزرگوار شیخ عباس قمی (رحمہ اللہ) امام کاظم (علیہ السلام) کی بیٹیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان سب سے افضل و برتر سیدہ جلیلہ حضرت فاطمہ بنت امام موسی بن جعفر (علیہم السلام) ہیں جو معصومہ کے لقب سے مشہور ہوئی ہیں۔
بے مثال فضیلت
علامہ تُستری (شوشتری)، اپنے رسالے "تواريخ النبيّ والآل عليہم السلام" میں حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا تعارف ایک مثالی خاتون (اور خواتین کے لئے اسوۂ کاملہ) کے عنوان سے کراتے ہیں جو امام رضا (علیہ السلام) کے بعد اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بے مثال تھیں؛ لکھتے ہیں:
"وَفَاطِمَةُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي وُلْدِ الْكَاظِمِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مَعَ كَثْرَتِهِمْ، بَعْدَ اَلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ، مِثْلَهَا؛ (35)
اور امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اولاد بکثرت ہونے کے باجود، امام رضا (علیہ السلام) کے بعد، کوئی بھی فاطمہ [معصومہ] (سلام اللہ علیہا) کا ہم پلہ نہیں تھا"۔
بے شک فاطمہ بنت موسی الکاظم (علیہما السلام) کے بارے میں اس طرح کی آراء ان روایات و احادیث پر استوار ہیں جو ائمہ معصومین (علیہم السلام) سے آپ کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ یہ روایات سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے ایسے مراتب و مدارج بیان کرتے ہیں جو آپ کے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کے لئے بیان نہیں ہوئے ہیں؛ چنانچہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا نام دنیا کی برتر خواتین کے زمرے میں قرار پایا ہے۔
بوئے وصال
بے شک اہل بیت اطہار (علیہم السلام) نے نہایت روشن چہرے عالم انسانیت کے حوالے کئے ہیں جن کے نام ستاروں کی مانند فضیلتوں کے آسمان پر چمک دمک رہے ہیں۔ ولایت کے ساتویں منظومے کی بزرگ خواتین کے درمیان فاطمہ بنت موسی الکاظم (علیہما السلام) تابناک ترین ستارہ ہیں؛ ایسی خاتون جن کی حریم سے علم و معرفت کے پیاسے ایمان کا آب حیات نوش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ عرفاء آپ کی زندگی کا تجزیہ کرکے، آپ کے ان لمحوں کا سراغ لگاتے ہیں جب آپ آسمانی وجود میں تبدیل ہوئی تھیں اور اس طرح وہ اپنے لئے عروج عارفانہ کی راہیں ڈھونڈتے ہیں اور کائنات کی وسعتوں میں شمیم وصال پھیلا دیتے ہیں۔
1 ۔ اتنا بڑا مقام کیوں؟
پوچھتے ہیں اتنا اونچا مقام کیوں؟ جبکہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی کئی بہنیں تھیں یہ سیدہ ان سے برتر و افضل کیوں ہیں؟
جواب: یہ سوال حضرت زہرا سلام علیہا کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے؛ اور جواب یہ ہے کہ: یہ دو خواتین ذاتی اور خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ، ایمان اور عمل کے میدان میں بھی ممتاز تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنے انتخاب سے اعلیٰ انسانی اقدار کے اعلیٰ مدارج و مراتب طے کئے تھے اور اپنے عرفان و عمل کی بنا پر اس مقام و منزلت تک عروج کرچکی تھیں۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) عمل، عرفان، ایمان، سیاست، اور مقام امامت کی حمایت کے سلسلے میں ممتاز تھیں اور آخرکار اسی راستے میں مقام شہادت پر فائز ہو گئیں۔
سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے قم میں اپنی 17 دن کی زندگی عبادت اور خداوند قدوس کے ساتھ راز و نیاز میں گذار دیئے؛ یہاں تک کہ آپ کی قیامگاہ کو "بیت النور" کا نام دیا گیا ہے اور یہ عبادتگاہ اس وقت قم کے میدان میر کے محلے اور مدرسہ ستّیہ میں واقع ہے اور آج بھی یہ مقام آپ کی نورانیت اور اپنے خالق یکتا کے ساتھ آپ کی خالص قربت کی گواہی دے رہا ہے۔
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی 27 سالہ پر برکت زندگی کی ثمر بخشی ثابت کرنے کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ قم میں آپ کے 17 روزہ قیام نے قم کے حوزہ علمیہ کو بقائے جاودانہ بخشی اور قم نے آپ ہی کی برکت سے لاکھوں محققیں، علماء، دانشوروں، مراجع عظام اور مجتہدین کرام عالم تشیع کو فراہم کئے۔ اکابر علماء ـ جیسے امام رضا (علیہ السلام) کے صحابی زکریّا بن آدم اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے وکیل حسن بن اسحاق سے لے کر میرزائے قمی، آیت اللہ شیخ ابوالقاسم قمی، آیت اللہ حائری، آیت اللہ صدر، آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، آیت اللہ حجّت، آیت اللہ بروجردی، حضرت امام خمینی، آیت اللہ سید احمد خوانساری، آیت اللہ گلپایگانی، آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ محمد علی اراکی، علامہ طباطبایی، استاد شہید مرتضیٰ مطہری (اعلی اللہ مقامہم الشّریف) تک ـ نے عالمۂ آل عبا سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے وجود کی برکت سے اس سرزمین پر پرورش پائی ہے اور بی بی ہی کے وجود نے حوزہ علمیہ کو مرکزیت و محوریت عطا فرمائی ہے اور قم نے آپ ہی کی برکت سے مدینہ فاضلہ کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے۔۔۔ اسلامی انقلاب در حقیقت اسی سرزمین کا فرزند مطہر ہے وہی جو فیضیہ کی آغوش میں پروان چڑھا، وہی فیضیہ جس کو مجاورت معصومہ نے فیض بخشا۔ بت شکن دوران امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے اسی مدرسے میں بیٹھ کر عالمی استکبار و استعمار کو للکارا اور یہیں سے اسلامی انقلاب کی شمع جلائی جس نے آج دنیا کے گوشے گوشے میں روشنی کے چراغ جلائے ہیں اور قوموں کو آج ان دشمنوں کے چہرے نظر آنے لگے ہیں جو ہمیشہ اقوام کو اندھیرے میں بلا کر ان کا استحصال کرتے رہے ہیں۔ آج انقلاب اسلامی کے چراغ ان کی رسوائی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور اسی بنا پر عالمی استکبار کو یہ چراغ ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے اور وہ اس کا سرچشمہ خشک کرنے کے درپے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی رحلت کے بعد یہ انسانیت کہ آفاق پر روشن ہونے والا اسلامی انقلاب کا یہ چراغ بجھ جائے گا مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا (36) چنانچہ سفینۂ انقلاب کو نئے امیر کے حوالے کیا گیا اور استکبار کی نیندیں حرام ہوگئیں کیونکہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای (مدّ ظلہ العالی) سفینۂ انقلاب کو دنیا کی وسعتوں میں آگے بڑھا رہے ہیں اور استکباری منصوبے اب اس کا راستہ روکنے سے عاجز آگئے ہیں۔ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی)، بھی اسی حوزہ قم کے شاگرد ہیں جو اس انقلاب مبارک کی حفاظت فرما رہے ہیں اور ہزاروں رکاوٹوں، سازشوں، عداوتوں، دوستوں کی حماقتوں اور دشمنوں کی شرارتوں کے بیچ سے ہوتے ہوئے اس کاروان کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔
خداوند عالم، انبیاء عظام، ائمۂ طاہرین، اولیاء الٰہی، حقیقی مجاہدین اور سُکّان ارض و سماء کا سلام و درود ہو؛ اس سیدہ کریمۂ اہل بیت (سلام اللہ علیہا) پر اس بزرگ خاتون پر، جس کاچشمہ فیض دائماً جاری ہے اور جس کا سرچشمۂ نور ہر وقت دنیا کی تاریکیوں میں امید ہدایت کے روشن نقاط کو اجاگر کرتا ہے۔ درود و سلام ہو اس کوثرِ ولایت پر۔
مختصر یہ کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ ایمان اور عمل انسان کو مقامات عالیہ اور مراتب و مدارج رفیعہ کے معراج تک پہنچا دیتا ہے۔ فرماتے ہیں:
"فَوَاللَّهِ مَا شِيعَتُنَا إِلاَّ مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَأطاعَهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِفُونَ؛ (37)
"خدا کی قسم وہ شخص ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے جو متقی و پرہیزگار نہ ہو اور جو خدا کی اطاعت نہ کرتا ہو"۔
نیز امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"يَا بنَ جُندَبٍ، بَلِّغْ مَعَاشِرَ شِيعَتِنَا وَقُلْ لَهُمْ لَا تَذْهَبَنَّ بِكُمُ اَلْمَذَاهِبُ فَوَاللَّهِ لاَ تُنَالُ وَلاَيَتُنَا إِلاَّ بِالوَرَعِ وَالإِجْتِهَادِ فِي الدُّنْيَا وَمُوَاسَاةِ الْإِخْوَانِ فِي اللَّهِ وَلَيسَ مِن شِيعَتِنَا مَنْ يَظْلِمُ النَّاسَ؛ (38)
اے فرزند جندب! ہمارے شیعوں کو یہ پیغام پہنچا دو کہ "کہیں ایسا نہ ہو کہ مختلف النوع راستے (اور مسالک و مکاتب) تمہیں ٹیڑھی راستوں کی طرف لے جائیں، کیونکہ خدا کی قسم کہ ہماری ولایت اور دوستی و محبت، زہد و تقوی اور سخت محنت اور دینی برادران سے تعاون اور ہمدردی کے بغیر حاصل نہیں ہؤا کرتی اور وہ ہمارے شیعوں میں شامل نہیں ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرے"۔
حضرت معصومہ علیہا السلام سے منقول روایتیں
1ـ اہل بیت (علیہ السلام) کے شیعہ اور شہادت کی موت
"عَنْ فَاطِمَة بِنْتِ موسَى بْن جَعْفَر عن فاطمة بنت جعفر الصادق عن فاطمة بنت محمد الباقر عن فاطمة بنت علی زین العابدين عن فاطمة بنت الحسين عن زينب بنت اميرالمؤمنين عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّه عليهِ وَآلِهِ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهِ عليه ِوَآلهِ: أَلا مَنْ ماتَ عَلَى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِيداً؛ (39)
حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام فاطمہ بنت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے وہ فاطمہ بنت امام باقر (علیہ السلام) سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد (علیہ السلام) سے، وہ فاطمہ بنت امام حسین (علیہ السلام) سے، وہ زینب بنت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) سے وہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : آگاہ رہوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر گذرے وہ شہید کی موت مرا ہے"۔
2ـ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت
"حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى اَلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ قالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وزَيْنَبُ وأُمُّ كُلْثُومٍ بَنَاتُ موسى بْنِ جَعْفَرٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قُلْنَ حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قَالَتْ حَدَّثَتْني فَاطِمَةُ وسَكِينَةُ ابنَتا الحُسَينِ بنِ عَلِيٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اَللَّهِ صلى الله عليه وَآلِهِ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ يَقُولُ: لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ دَخَلتُ الجَنَّةَ فَإذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِن دُرَّةٍ بَيْضَاءَ مُجَوَّفَةٍ وَعَلَيْهَا بَابٌ مُكَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ وَعَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى اَلْبَابِ لَا إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَلِيٌ وَلِيُّ القَوْمِ وَإِذَاً مَكْتُوبٌ عَلَى السِّتْرِ بَخ بَخِ مِن مِثْلِ شِيعَةِ عَلِيٍ؛ فَدَخَلْتُهُ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِن عَقيقٍ أَحْمَرَ مُجَوَّفٍ وَعَلَيهِ بابٌ مِن فِضَّةٍ مُكَلَّلٍ بِالزَّبَرْجَدِ الْأخْضَرِ وَإِذَا عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى اَلْبَابِ "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اَللَّهِ عَلِيٌ وَصِيُّ المُصْطَفَى" وَإِذَا عَلَى السِّتْرِ مَكْتُوبٌ بَشِّرْ شِيعَةَ عَلِيٍ بِطِيبِ المَوْلِدِ فَدَخَلتُهُ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ زُمُرُّدٍ أَخْضَرَ مُجَوَّفٍ لَمْ أَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ؛ وَعَلَيْهِ بَابٌ مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ مُكَلَّلَةٍ بِاللُّؤْلُؤِ وَعَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مكتوبٌ عَلَى اَلسِّتْرِ شِيعَةُ علِي هُمُ اَلْفَائِزُونَ فَقُلْتُ حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ لِمَن هَذا فَقالَ يا مُحَمَّدُ لاِبْنِ عَمِّكَ ووَصِيِّكَ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ؛ يُحْشَرُ اَلنَّاسُ كُلُّهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً إِلاَّ شِيعَةَ عَلِيٍ ويُدْعَى النَّاسُ بِأسْمَاءِ أُمَّهَاتِهِم مَا خَلَا شِيعَةَ عَلِيٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَإِنَّهُمْ يُدْعَوْنَ بِأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ فَقُلْتُ حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ وكَيْفَ ذَاكَ قَالَ لِأَنَّهُمْ أَحَبُّوا عَلِيّاً فَطابَ مَوْلِدُهُمْ؛ (40)
خبر دی ہمیں فاطمہ بن علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے، انھوں نے کہا: مجھے خبر دی ہے کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی صاحبزادیوں فاطمہ [معصومہ]، اور زینب اور ام کلثوم نے، انہوں نے کہا: ہمیں خبر دی ہے فاطمہ بنت جعفر صادق (علیہما السلام) نے، انھوں نے کہا: مجھے خبر دی ہے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی صاحبزادی فاطمہ نے، انھوں نے کہا: مجھے خبر دی ہے کہ مجھے امام زین العابدین (علیہ السلام) کی صاحبزادی فاطمہ نے بتایا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے امام حسین (علیہ السلام) کی صاحبزادیوں فاطمہ اور سکینہ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی صاحبزادی ام کلثوم سے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) سے، نقل کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرماتے ہوئے سنا کہ "مجھے [شب معراج] آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو میں جنت میں داخل ہؤا، تو میں نے مجھے ایک محل نظر آیا، جو سفید رنگت کے ایک ہی کھوکھلے عظیم موتی سے بنا ہؤا تھا، اور اس محل کا ایک دروازہ تھا جو موتیوں اور یاقوت سے مزین تھا، اور اس دروازے پر ایک پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے سر اٹھایا اور میں نے اس دروازے پر لکھا ہؤا دیکھا کہ "کوئی معبود نہیں ہے، اللہ کے سوا، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے پیغمبر ہیں اور علی (علیہ السلام) لوگوں کے مولا اور سرپرست ہیں"، اور اس پردے پر لکھا تھا "واہ واہ! کون ہے علی کے شیعوں کی مانند؟۔ میں محل میں داخل ہؤا تو پھر محل دیکھا جو خالص سرخ کھوکھلے عقیق سے بنا ہؤا تھا جس کا ایک چاندی کا بنا ہؤا دروازہ تھا، جو کہ سبز زبرجد سے مزین تھا اور اس پر ایک پردہ لٹک رہا تھا۔ میں سر اوپر اٹھایا دیکھا کہ اس دروازے پر لکھا ہے: "محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے رسول ہیں اور علی (علیہ السلام) مصطفیٰ کے جانشین ہیں"، اور اس دروازے پر لکھا تھا: "خوشخبری دیجئے شیعیان علی(ع) کو، کہ وہ سب سے حلال زادہ ہیں"۔ میں داخل ہؤا، تو پھر بھی کھوکھلے زمرد سے بنا محل دیکھا جس سے زیادہ خوبصورت محل میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس محل کا سرخ یاقوت کا بنا دروازہ تھا جو موتیوں سے مزین تھا اور اس کے اوپر پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے سر اٹھایا اور پردے پر لکھا ہؤا دیکھا کہ "علی (علیہ السلام) کے شیعہ ہی فاتح و کامیاب ہیں"؛ میں نے کہا: اے میرے دوست جبرائیل! یہ محل کس کا ہے؟ تو انھوں نے کہا: "اے محمد! یہ آپ کے چچازاد بھائی اور جانشین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا محل ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور جسم عریاں کے ساتھ میدان حشر کے میدان میں آئیں گے سوائے علی (علیہ السلام) کے شیعوں کے۔ لوگوں کو اس دن ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا سوا شیعیان علی(ع) کے، جنہوں باپ کے نام سے پکارا جائے گا"۔ میں نے کہا: "اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟" تو جبرائیل نے کہا: "یہ اس لئے ہے کہ وہ علی (علیہ السلام) سے محبت کرتے ہیں، اور ان کی ولادتیں پاک و طاہر ہیں اور وہ حلال زادہ ہیں"۔
3ـ خالص عبادت کا ثمرہ
سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) روایت کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا:
"مَنْ أَصْعَدَ إِلَى اَللَّهُ خَالِصَ عِبَادَتِهِ أَهْبَطَ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِليْهِ أَفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ؛ (41)
"حضرت معصومہ (س) روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھیجے گا خدا اپنی بہترین مصلحتیں اس کی جانب اتارے گا"۔
4ـ امت سے خطاب: کیا تم حدیث غدیر و حدیث منزلت کو بھول گئے
"حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى اَلرِّضَا عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قالَتْ حَدَّثَتْني فَاطِمَةُ وَزَيْنَبُ وأُمُّ كُلْثُومٍ بَنَاتُ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قُلْنَ حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ اَلصَّادِقِ عَلَيْهِما السَّلاَمُ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍ عَلَيْهِما السَّلامُ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بنِ الحُسَينِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وسَكِينَةُ ابْنَتَا الحُسَينِ بنِ عَلِيٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ فَاطِمَةَ بِنْتِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وَآله عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ قَالَتْ أَنَسِيتُمْ قَوْلَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى الله عليه وَآله يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍ 'مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌ مَوْلاَهُ' وَقَوْلَهُ صَلَّى الله عليه وَآله 'أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ'؛ (42)
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی صاحبزادی فاطمہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی صاحبزادیوں فاطمہ [معصومہ]، زینب اور ام کلثوم سے نقل کرتی ہیں کہ انہوں نے امام صادق (علیہ السلام) کی صاحبزادی، فاطمہ سے اور انہوں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی صاحبزادی فاطمہ سے، انہوں نے امام سجاد (علیہ السلام) کی صاحبزادی فاطمہ سے، اور انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کی صاحبزادیوں فاطمہ اور سکینہ (سلام اللہ علیہما)، انہوں نے سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی ام کلثوم سے نقل فرمایا ہے کہ سیدہ بنت الرسول(ص) نے [خطبۂ غدیریہ کے ضمن میں، مسجد النبی(ص) میں حاضر لوگوں سے مخاطب ہوکر] استفسار کیا: کیا تم نے غدیر خم کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ارشاد 'مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌ مَوْلاَهُ' (جس کا میں مولا ہوں تو علی بھی اس کے مولا ہیں) اور آنحضرت کے ارشاد 'أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ' (اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی) کو بھلا دیا؟"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ محمد بن جریر بن رستم طبری (الشیعی)، دلائل الامامہ، ص309۔
2۔ میرزا ابو طالب بیوک، وسیلۃ المعصومۃ، ص65، بحوالہ کتاب "نزہۃ الابرار فی نسب اولاد الائمۃ الاطہار"۔
3۔ شیخ علی نمازی، مستدرک سفینۃ البحار، ج8، ص/ 257۔
4۔ علی بن احمد بن عبداللہ مالکی (المعروف بہ ابن صباغ مالکی)، الفصول المہمہ فی معرفۃ الائمہ، ج2، ص932۔
5۔ قاضی سید نور اللہ (الشہید الثالث) ابن سید شریف الدین حسینی شوشتری، مجالس المؤمنین، ج1، ص168؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج57، ص228۔
6. علی اکبر مہدی پور، زندگانی کریمہ اہل بیت علیہا السلام، ص236۔ بحوالہ از: ابن العرندس، شیخ صالح بن عبد الوہاب بن العرندس، کشف اللئالی۔
7. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج60، ص216۔
8. مہدی منصوری، زندگانی حضرت معصومہ، ص14، بحوالہ از ملک الکتاب شیرازی، ریاض الانساب۔
9۔ میرزا ابو طالب بیوک، وسیلة المعصومہ، ص68؛ جعفر مرتضیٰ عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا علیہ السلام: ص428؛ علی اکبر تشید، قیام سادات علوی، ص168۔
10۔ محمدرضا سقازاده واعظ تبریزی، دریائے سخن، ص12، بحوالہ از: محمد صادق انصاری زنجانی، ودیعہ آل محمد، فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا۔
11۔ ابو علی حسن بن محمد بن حسن شیبانی اشعری قمی، تاریخ قدیم قم، ص213۔
12۔ شام میں سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) کا خطبہ۔ ابن طیفور، احمد بن ابی طاہر، بلاغات النساء، ص26-27؛ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج2، ص34-38؛ سید علی بن موسیٰ، اللہوف، ص105؛ الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیہالسّلام)، ج2، ص71۔
13۔ اشعری قمی، تاریخ قدیم قم، ص214۔
14۔ رازی، محمد شریف، گنجینۂ دانشمندان، ج1، ص14-15۔
15۔ شیخ عباس قمی بن محمد رضا، (المعروف بہ محدث قمی)، سفینۃ البحار، ج2، ص376۔
16۔ شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ص99؛ شیخ صدوق، عيون اخبار الرضا(ع)، ص299؛ شیخ عبداللہ بن نور اللہ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم و المعارف و الاحوال من الایات والاخبار والاقوال، ج21، ص331۔
17۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج48، ص307۔
18۔ اشعری قمی، تاریخ قدیم قم، ص214؛ علامہ مجلسى، بحار الانوار، ج99، ص267۔
19۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)۔
20۔ جعفر بن محمد قولویہ، كامل الزيارات، ص536۔
21. محمد علی بن حسین نائینی اَردستانی، انوار المشعشعین فی ذکر شرافه قم والقمیین، ج1،ص212۔
22۔ مولیٰ حيدر بن محمد خوانساری، زبدۃ التصانيف، ج 6، ص 159، بحواله كريمه اهل بيت، ص 3۔
23. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج99، ص50۔
24۔ جعفر بن محمد قولویہ قمى، کامل الزیارات ص41؛ شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج14، ص331۔
25۔ محمد بن علی العلوی الحسنی الشجری الکوفی؛ فضل زیارۃ الحسین (علیہ السلام)، ص59، ح39؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج101، ص42۔
26۔ بحار الانوار، ج101، ص43۔
27۔ بحار الانوار، ج102، ص33۔
28۔ بحار الانوار ج 102، ص265۔
29۔ محمد تقی لسان الملک سپہر ابن ملا محمد علی کاشانی، ناسخ التواریخ، ج3، ص68؛ علی اکبر مہدی پور، كريمہ اہل بيت(س)، ص32۔
30۔ شیخ محمد بن حسن حر عاملی، الجواہر السنیہ، ج1، ص363؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج93، ص376؛ حسن بن محمد دیلمی، ارشاد القلوب، ج1، ص156؛ محدث نوری، علامہ حسین بن محمد تقی نوری مازندرانی طبرسی، مستدرک الوسائل، ج11، ص259۔
31۔ تالیف عبدالرزاق گیلانی، (منسوب بہ امام صادق (علیہ السلام))، مصباح الشریعۃ، باب 100، ص598۔
32۔ مہدی پور، كريمۂ اہل بيت(س)، ص43، تلخيص و تصرّف کے ساتھ۔
33۔ "وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوداً؛ اور رات کے کچھ حصہ میں آپ نماز تہجد پڑھئے۔ جو آپ کے لئے ایک اضافہ ہے نزدیک ہے کہ آپ کو آپ کا پروردگار ایک "قابل تعریف موقف" پر کھڑا کرے"۔ (سوره اسراء آیت 79)
34. مہدی مہدی پور، كرامات معصوميہ، کرامت نمبر 10۔
35. شیخ محمد تقی تُستری، رسالۃ فی تواريخ النبيّ والآل عليہم السلام (مطبوعہ قم 1423ھ)، ص103۔
36۔ خداوند متعال کا ارشاد گرامی ہے: "يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ؛ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے کسی بات سے سوا اس کے کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے، چاہے کافر لوگ ناگواری محسوس کریں"۔ (سوره توبه آیت 32)؛ "يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ؛ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اپنے منہ سے اور اللہ اپنے نور کو کمال منزل تک پہنچانے والا ہے، چاہے کافر لوگ ناپسند کریں"۔ (سورہ صف آیت 8)۔
37۔ محمّد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی، الکافی، ج2، ص74۔
38۔ حسن بن علی بن حسین بن شُعبَہ حَرّانی، تُحَفُ العُقول، ص303۔
39۔ محمد شریف رازی، آثار الحجۃ، ص9.
40۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج65، ص77۔
41۔ احمد بن محمد بن فہد حلی، عُدّۃُ الدّاعی و نَجاحُ السّاعی، ص218؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 70، ص 249؛ ج67، ص249۔ تفسیر الامام العسکری (علیہ السلام)، ص327۔
42۔ علامہ عبدالحسین امینی، الغدیر، ج1، ص196؛ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم والمعارف والاحوال، ج15، ص120۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110