حال ہی میں فرانسیسی خبر ایجنسی نے رپورٹ دی تھی کہ سعودی حکومت – [جس نے تقریبا تمام اسلامی آثار کو ویرانوں میں تبدیل کر دیا ہے] – خیبر کے کھنڈرات کی تعمیر نو کے لئے کوشاں ہے اور وہاں سیاحوں کی رہائش کے لئے ایک کمپلیکس کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس عمارت میں توانائی کے ذریعے علاج معالجہ کرنے والا ایک یہودی طبیب شاموئل شموئیل تعینات کیا گیا ہے اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھوں مفتوحہ خیبر میں ایک بار پھر یہودیوں کی مہم جوئیوں کی یاد تازہ کر لی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کا نمایاں نکتہ یہ ہے کہ اس میں خیبر پر سلطنت بابل کے آخری بادشاہ نابونیدوس (Nabonidus) یا نابونعید کی یلغار کی تاریخ کو تو لکھا گیا ہے لیکن طلوع اسلام اور اسلامی دور کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہؤا ہے!
خیبر، مدینہ منورہ کے قریب ترین شہروں میں سے ایک ہے جو مدینہ منورہ کے بعد اہم ترین بھی ہے اور مدینہ منورہ سے 168 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر انتظامی لحاظ سے مدینہ منورہ کے انتظامی حلقے میں آتا ہے اور وہابیوں کے ہاتھوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں لا تعداد تاریخی اسلامی مقامات کے انہدام کے برعکس، خیبر کے بہت سے تاریخی عمارتیں اور قدیم آثار ہنوز موجود ہیں؛ جن میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے یہودی پہلوان مرحب کا قلعہ ابھی تک موجود ہے۔ یہ قلعہ ہجرت مدینہ کے بعد کفر کا اہم ہیڈکوارٹر سمجھا جاتا تھا۔
منطقۂ خیبر کا مرکزی شہر “الشُرَيْف” ہے۔ صدر اول میں خیبر کے باشندے یہودی تھے۔ مسلم مؤرخین کا اتفاق ہے کہ خیبر کے یہودی ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی، مکہ جا کر مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی ترغیب دلاتے تھے اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ دشمنی پر اکسانے کے لئے، بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے تھے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اشعار کہہ کر مشرکین کو مشتعل کرتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت نے ان سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور خیبر کو فتح کر لیا۔ فتح خیبر مسلمانوں کی پہلی فتح سمجھی جاتی ہے جس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو فتح مکہ، فتح حنین اور فتح طائف جیسی فتوحات نصیب ہوئیں۔
خیبر کے معنی قلعے کے ہیں اور چونکہ خیبر کئی قلعوں کا مجموعہ تھا اسی بنا پر خیبر کہلاتا تھا۔ غزوہ خیبر سنہ 7 ہجری کو انجام پایا اور مسلمانوں نے خیبر کے قلعوں کو فتح کیا۔ ان قلعوں میں سے بعض قلعوں کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فتح کیا۔ جنگ کے بعد یہودیوں کو اس علاقے سے جلاوطن نہیں کیا گیا لیکن طے پایا کہ اپنی زرعی پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو دیا کریں۔
صہیونی یہودیوں نے گذشتہ صدی میں 1970ع کی دہائی سے اپنی نظریں خیبر پر لگائی ہوئی تھیں چنانچہ یہودی ریاست کی وزارت قانون نے ایک خصوصی محکمہ قائم کیا جس کا کام ان عرب ممالک میں یہودی “املاک!” کی فہرست فراہم کرنا تھا؛ جں سے یہودی نقل مکانی کی تھی۔
اسی دور میں سعودی حکومت نے خیبر کے کچھ قبائل – بشمول دیان، جافی اور شلواح کو، جن پر یہودی ریاست کی تحقیقات مرتکز ہو چکی تھیں – کو وہاں سے نقل مکانی کروائی تھی۔ جس میں بظاہر صہیونی حکام کی مرضی بھی شامل تھی!
یہودی ریاست کے زعماء خیبر میں اپنی مہم جوئیوں کو در پردہ آگے بڑھانا چاہتے تھے، لیکن ان کے بیانات نے ان کے خفیہ عزائم کو عیاں کر دیا؛ جون 1967ع میں قدس شریف پر یہودیوں نے قبضہ کیا تو یہودی ریاست کے وزیر جنگ موشے دایان (Moshe Dayan) نے فاتحانہ انداز میں، اعلانیہ، موقف اپنایا کہ “ہم نے قدس پر قبضہ کرلیا، یہ یوم خیبر ہے ۔۔۔ اور ہم خیبر تک پہنچنے کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں”۔
تاریخ اس تاریخی خیانت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ مصری صدر انور السادات اور صہیونی وزیر اعظم مناخم بیگن (Menachem Begin) نے مورخہ 17 ستمبر 1978ع کو کیمپ ڈیویڈ کے مقام پر، ایک غدارانہ معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ جس کے بعد سنہ 1969ع سے 1974ع تک صہیونی وزیر اعظم رہنے والی گولڈا مئیر (Golda Meir) نے خلیج عقبہ میں مشرق اور سعودی عرب کی طرف رخ کرکے غرور و تکبر کے ساتھ کہا: “میں اس مقام سے ایک تازہ ہوا کی بو محسوس کر رہی ہوں۔ خیبر و یثرب کی ہوا۔۔۔ خیبر میں اپنے آباء و اجداد کی خوشبو، محسوس کر رہی ہوں”۔ جبکہ “عائش” نامی شخص – جو یہودیوں کے تاریخی امور کا ماہر ہے – نے اپنی ویب گاہ پر دعویٰ کیا ہے کہ “خیبر اور یثرب پر یہودیوں کا تاریخی حق ہے اور یہودیوں کو متحد ہو کر جزیرہ نمائے عرب میں اپنی “آبائی تاریخ” کی بحالی کے لئے تیار ہو جائیں”۔
“دیارنا” (ہمارا وطن Diarna) کا یہودی منصوبہ سنہ 2008ع میں شروع ہؤا ہے اور تب سے خیبر پر یہودیوں کی للچائی ہوئی نظریں مزید گہری ہو گئی ہیں اور صہیونیوں کے بقول اس منصوبے کا مقصد عربی علاقے میں یہودیوں کے تاریخی مقامات کی حفاظت کرنا ہے۔
اس منصوبے کا بانی اور ڈائریکٹر امریکی یہودی جیسن گوبر مین (Jason Guberman-Pfeffer) ہے۔ اور اس نے اس منصوبے کے تحت درجنوں تاریخی مقامات کے سلسلے میں دستاویزی فلمیں اور رپورٹیں تیار کی ہیں لیکن گوبر مین نے واضح طور پر اعلان کیا کہ “جب ہم سعودی عرب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں؛ کیونکہ اس ملک کی تاریخی عمارتیں – بالخصوص خیبر – جزیرہ نمائے عرب میں یہودیوں کا ورثہ ہے اور دیارنا پراجیکٹ نے اس علاقے کے بارے میں تحقیق اور دستاویزات کی فراہمی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے”۔
امر واضح ہے کہ یہودیوں اور صہیونیوں کی مہم جوئیاں صرف زبانی کلامی مطالبات تک محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ ہرجانہ بھی مانگتے ہیں۔ برطانوی اخبار اکانومسٹ (The Economist) نے سنہ 2014ع میں رپورٹ دی تھی کہ یہودی ریاست کے [اس وقت کے] وزیر اعظم نیتن یاہو نے صہیونیوں مدعیوں کے لئے ایک ٹیلی فون لائن کھول رکھی ہے اور کہا تھا کہ “یہ لائن اس لئے کھول دی گئی ہے کہ یہودی، عرب اور اسلامی دنیا میں اپنے کھوئے ہوئے اموال و املاک کا ریکارڈ ثبت کر دیں اور ان ممالک سے ہرجانے کا مطالبہ کریں کیونکہ ان یہودیوں نے ترک وطن کرتے وقت ان ممالک میں اپنے گھروں اور جائیدادوں کو چھوڑ رکھا ہے؛ اور ہمارے حساب کے مطابق، صرف سعودی عرب کو اس حوالے سے یہودیوں کو ایک سو ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا”۔
مذکورہ پراجیکٹ نے ہمیشہ اپنا کام خفیہ صیغۂ راز میں رکھا ہے لیکن اس کی کارکردگی سے متعلق کچھ خبریں منظر عام پر آئی ہیں جن کے مطابق یہ ہرجانہ حال ہی میں یہودی ریاست اور کچھ عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے [خائنانہ] سمجھوتوں کی شقوں میں شامل کیا گیا ہے جن میں ایک ضمیمے کا عنوان “آر-ایچ کے” (R-Kh) ہے جو “خیبر کی طرف واپسی” (Return to Khyber) کا مخفف ہے۔ اس خائنانہ سمجھوتے کے مطابق، سعودی حکومت کچھ یہودیوں کو خیبر میں اراضی مختص کرنے کی پابند ہے؛ اور یہودی ان اراضی میں بظاہر 99 برسوں تک زراعت کا کام بھی کریں گے اور دوسرے منصوبوں پر بھی۔ ان اراضی کی تخصیص 100 ارب ڈالر کے علاوہ ہیں جو سعودی حکمران یہودی ریاست کو بطور ہرجانہ ادا کریں گے۔
البتہ یہودی ہمیشہ سے لالچی، عہد شکن اور خطرہ مول لئے بغیر اراضی اور ممالک پر دعویٰ کرنے کے عادی ہیں؛ چنانچہ یہودیوں کی نئی مہم جوئی نہیں ہے۔ لیکن جو کچھ تازہ اور خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان کی حکومت کی یہود نوازی ہے جو جزیرہ نمائے عرب میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھانے میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
محمد بن سلمان نے سنہ 2018ع میں امریکی مجلے دی اٹلانٹک (The Atlantic) کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: “یہودی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آبائی سرزمین کے کچھ حصے میں اپنے لئے ایک قومی حکومت قائم کریں”۔
یہ مسئلہ بن سلمان کی خائنانہ اور انتہائی خطرناک گفتگو پر ختم نہیں ہؤا بلکہ آگے بڑھا اور آج اس کی تشہیر بھی ہو رہی ہے اور حمایت بھی۔ کیونکہ – جیسا کہ سعودی قبیلے کے ہاتھوں اسلامی آثار کی تباہی کے وقت اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ قبیلہ یہودی آثار کی حفاظت پر مامور ہے – دیارنا پراجیکٹ کے بانی نے واضح کرکے کہا ہے کہ “سعودی حکمران خفیہ طور پر قبل از اسلام کے یہودی مقامات کی حفاظت کے لئے کوشاں ہیں؛ اس لئے بھی کہ سعودی عرب میں بہت سارے یہودی مقامات موجود ہیں”۔
بن سلمان حکومت دیارنا پراجیکٹ کی تشہیر میں آگے آگے ہے؛ یہاں تک کہ سعودی سرمائے سے چلنے والے ٹی وی چینل ایم بی سی نے ایک بار پراجیکٹ کے جیسن گوبر مین کو اپنے پروگرام “فی الآفاق” میں بلا لیا اور اس کو موقع دیا گیا کہ اپنے پراجیکٹ کا تعارف کرائے اور ان سہولیات کے بارے میں بات چیت کرے جو سعودی حکومت اس کے منصوبے کو فراہم کر رہی ہے۔
چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ مبینہ سعودی ورثے کے بارے میں صہیونیوں اور ان کے ذرائع ابلاغ کے دعؤوں اور نعروں کی صدا بلند تر ہو چکی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے سنہ 2015ع میں رپورٹ دی تھی کہ یہ مسئلہ آج تک ممنوع تھا لیکن اس کے باوجود ممکن ہے کہ [یہودی] سیاح عنقریب سعودی عرب میں یہودیوں کے آثار قدیمہ کا قریب سے مشاہدہ کر سکیں جن میں سے اہم خیبر اور اس قلعے “قلعۂ مرحب اور صخرۃ النصلہ، اور تیماء میں واقع “بئر هداج” (ہداج کا کنواں)” ہیں۔
آج یہودیوں کی صدا پہلے سے کہیں زيادہ بلند اور گستاخانہ ہو چکی ہے۔ صہیونی ڈاکٹر مئیر مصری کہتا ہے: “میری دادی نے خیبر میں اپنے گھر کی چابی اپنے پاس رکھ لی ہے اور ہم بدستور پلٹنے کا حق مانگ رہے ہیں”۔ اس نے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے: “بیت المقدس خیبر کے عوض!” (یعنی مسلمانوں نے خیبر پر قبضہ کیا تھا اور ہم نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے اس کا بدلہ لیا ہے)۔
یہودی صحافی ایدی کوہن (Edy Cohen) نے بھی کہا ہے کہ “خیبر میری آبادئی سرزمین ہے”؛ نیز اس نے گستاخی کی حد کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ “خیبر کے اراضی کو بہت بڑی قیمت پر امریکی کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کیا جائے!”۔
سعودی لبکس نامی ویب گاہ نے لکھا ہے کہ “محمد بن سلمان حکومت کے حالیہ قانونی ترمیم کے بعد، اب غیر ملکی مکہ اور مدینہ میں بھی بھی جائیداد کے مالک بن سکتے ہیں؛ اور اس ترمیم کے کے تحت اب صہیونی-یہودی بڑی آسانی سے کسی بھی بھیس میں، خیبر کی زمینوں کے مالک بن سکتے ہیں”۔
خیبر میں رونما ہونے والے نت نئے واقعات کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہودی پہلے قدم کے طور پر خیبر کے اراضی کی مرحلہ بہ مرحلہ تعمیر نو کا اہتمام کریں گے تاکہ یہ علاقہ سیاحوں کے لئے دلکش بن جائے اور یہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لائے۔
اس حساب سے، خیبر جو صدر اول میں یہودی سازشیوں کا آخرہ اڈہ سمجھا جاتا تھا، نئے دور میں سعودی عرب کے اندر صہیونی یہودیوں کا اولین اور اہم ترین اڈہ بنے گا اور اس کے بعد محمد بن سلمان یہودیوں اور اسرائیلوں کے لئے تبوک کے علاقے میں نئوم (Neom) کا منصوبہ نافذ کرے گا اور جزیرہ نمائے عرب کے دوسرے علاقے بھی یہودیوں کے زیر اثر آئیں گے؛ ان کے طیارے مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اوپر پرواز کریں گے اور صہیونی وفود حجاز مقدس کو پلید کرتے ہوئے سرزمین حرمیں پر مسلط سعودی قبیلے میں اپنے ہم پیالہ اور ہم نوالہ عزیزوں کے ساتھ ملاقات اور بیت چیت کریں گے! جیسا کہ امریکہ کی یہودی برادری کے راہنماؤں نے حال ہی میں جزیرہ نمائے عرب کا دورہ کرکے مقدس مقامات کا دورہ کیا! جو حجاز کے اندر بھی اور عالم اسلام میں بھی، دین و مذہب کے علمبرداروں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
242