اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

27 اکتوبر 2022

5:54:40 PM
1317832

زوال پذیر یہودی ریاست؛

خفت آمیز ترین شکست کا باضابطہ اعتراف / حزب اللہ کی جیت صہیونیوں کی ایک شکست

تیل کی جنگ میں محور مقاومت کی استقامت، لبنان کی عظیم کامیابی اور جعلی یہودی ریاست کی ذلت آمیز شکست کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، ایسی ذلت آمیز شکست جس کا صہیونیوں نے بارہا اعتراف کیا ہے۔ صہیونیوں کو مذاکرات کی میز پر پہلی بار، شکست کی تلخی چکھنا پڑی ہے۔


لبنان کو گذشتہ تین سالہ عرصے سے وسیع پیمانے پر سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے، لیکن لبنانی عوام کو بالآخر ایک خوش کن خبر ملی ہے "بیروت اور تل ابیب کے درمیان آبی سرحدوں کے تعین کا سمجھوتہ" منعقد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے لبنانیوں کے درمیان سرور اور شادمانی کی لہر دوڑی ہے جبکہ غم و غصے نے پوری غاصب ریاست کو آ لیا ہے، جو گذشتہ 74 سال کے عرصے میں سب کچھ طاقت اور کُشت و خون کے ذریعے حاصل کرتی رہی تھی، اس بار بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے تیل اور گیس کے ذخائر سے محروم اور لبنان کے مقابلے میں خفت آمیز شکست سے دوچار ہوئی اور اس کو حزب اللہ کے خوف سے بحری سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے پر دستخط کرنا پڑے ہیں۔
امریکی ثالث ایموس ہوکسٹائن (Amos Hochstein) - جو لبنانی حکومت اور جعلی یہودی ریاست کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا ذمہ دار تھا - نے لبنان اور فلسطین کے درمیان بحری سرحدوں کے تعین اور کاریش گیس اور آئل فیلڈ سے تیل اور گیس کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے سے متعلق سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے، گذشتہ دو سال کے عرصے میں کئی بار بیروت اور تل ابیب کے دورے کئے اور آخرکار چند ہی دن قبل، سمجھوتے کا مسودہ فریقین کے سامنے پیش کیا جس پر تل ابیب نے گذشتہ ہفتے بدھ (مورخہ 12 اکتوبر 2022ع‍) کو اور بیروت نے ایک دن بعد جمعرات کے دن، اس سمجھوتے پر دستخط کئے۔
گذشتہ 10 دنوں کے دوران بیروت اور تل ابیب کے درمیان بحری سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے پر صہیونیوں کی سیکورٹی کابینہ کی طرف سے تین قسم کے واقعے سامنے آئے:
پہلا واقعہ یہ تھا کہ لبنان اور صہیونی ریاست کے سربراہوں کے سامنے ہوکسٹائن کا مجوزہ سمجھوتے کا مسودہ پیش کئے جانے کے بعد کے اس عرصے میں، فریقین نے ہوکسٹائن کی تجویز سے اتفاق، کا اعلان کیا؛
دوسرا رد عمل یہ تھا کہ وقتی ریاست کے عبوری وزیر اعظم یائیر لاپید نے اس کے صرف ایک دن بعد - اندرونی دباؤ کے تحت - اعلان کیا کہ "میں اپنی بات واپس لیتا ہوں اور امریکی ثالث کی تجویز کا مخالف ہوں"۔
تیسری بات یہ تھی کہ [ایک طرف سے] ہوکسٹائن [جس کو حزب اللہ کی سنجیدہ دھمکی کی رو سے، حالات کی نزاکت کا اندازہ تھا] ایک بار پھر سرگرم عمل ہؤا اور ایک نیا مسودہ فریقین کے سامنے رکھا، جس کو فریقین نے منظور کر لیا۔
البتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صہیونی ریاست کے عبوری وزیر اعظم نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ "جیسا کہ پہلے روز سے ہمارا مطالبہ تھا، یہ معاہدہ سلامتی، معاشی اور سیاسی حوالوں سے اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے!"، [جو غیر جانبدار مبصرین کے لئے حیرت کا باعث ہے]۔
اس نے یہ بھی کہا تھا کہ "ہم خاموشی سے، شور و غل کے بغیر، لبنان کے ساتھ بحری سرحدوں کے تعین کے سلسلے میں سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے کوشاں ہیں"۔
صہیونیوں کی بےشماری دھمکیوں اور فوجی دستے کاریش کی طرف روانہ کرنے کے اعلانات کے بعد، ان کا ہر روز بدلتا ہؤا موقف اور آخرکار سمجھوتے پر ان کے دستخطوں سے اس حقیقت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے کہ "صہیونی ریاست نے حزب اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہے؛ اور وہ سید حسن نصراللہ کی دھمکیوں اور ان کے قومی اقدامات کے سامنے کسی قسم کا رد عمل ظاہر کرنے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتی؛ لہٰذا تل ابیب کے سرغنے بہرصورت - یا بات چیت کے ذریعے یا پھر جنگ کے نتیجے میں – لبنان کا حق دینے پر مجبور تھے۔  
صہیونی حکام اور ذرائع ابلاغ کے اعترافات: ہم شکست کھا گئے!
صہیونی ریاست کے ایک اخبار ہا آرتص نے اپنی رپورٹوں کے ضمن میں اعتراف کیا کہ "تل ابیب کے پاس لبنان کے ساتھ بحری سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں تھا"۔
جعلی ریاست کی سیکورٹی کابینہ کے ایک وزیر نے ہا آرتص کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان آبی سرحدوں کے تعین سے صہیونی ریاست کے اتفاق کے بارے میں کہا: "حتیٰ وہ لوگ بھی جو عبوری وزیر اعظم یائیر لاپید کی طرف سے لبنان کو رعایتیں دینے کے خلاف تھے، اور وہ بھی جو سمجھتے تھے کہ اس سے بہتر سمجھوتے کے انعقاد کا امکان بھی تھا، جب حقائق کو جان گئے اور موصولہ اطلاعات اور معلومات سے واقف ہوئے تو کابینہ کے اجلاس میں سمجھوتے کے مخالف نہیں رہے"۔
ہا آرتص نے مزید لکھا: سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اور وزیر مواصلات یوآز ہینڈیل (Yoaz Hendel) - جو  اس سمجھوتے کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے - نے ووٹ دینے سے گریز کیا! کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا؛ صرف ایک رکن کابینہ، جو لاپید کا انتخابی رقیب ہے، نے ظاہری طور یوں دکھایا کہ گویا لبنان کے ساتھ بحری سرحدوں کے تعین کے خلاف ہے اور ابھی تک اپنی رائے سے نہیں پلٹا ہے جو سابق صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ گوکہ خطے کے مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو "پردیس میں ڈینگیں" مار رہا ہے، کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ سمجھوتہ اس کے دور میں انجام کو پہنچتا، ورنہ وہ فی الواقع بھی لبنان کے ساتھ بحری سرحدوں کے تنازعے کے پرامن حل کا خواہاں ہے، وجہ بھی یہ ہے کہ وہ لبنانی مقاومت (حزب اللہ کی طاقت اور سید حسن نصر اللہ کی سنجیدگی) سے بخوبی آگاہ ہے۔
مگر اب نیتن یاہو اپنے رقیب کو زچ کرنے کے لئے کہتا ہے کہ تل ابیب اس مسئلے میں حزب اللہ لبنان کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ "اگر میں اگلے انتخابات میں دوبارہ وزیر اعظم بنا تو اس سمجھوتے کو منسوخ کروں گا"۔
نیتن یاہو نے مزید کہا ہے کہ "لاپید نے صہیونی پارلیمان (کنیسٹ) کے جائزے کے بغیر، گیس کے عظیم ذخائر کو نقرئی طشتری میں، حزب اللہ لبنان کو پیش کر دیا ہے"۔
اس نے اس سے قبل بھی لاپید پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے بحری سرحدوں کے تعین کے سلسلے میں سید حسن نصر اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک لئے ہیں اور حزب اللہ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
لاپید نے بھی رد عمل دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ "نیتن یاہو سمجھوتے کے مسودے کی تفصیلات جانے بوجھے بغیر اس سلسلے میں مسلسل بولے جا رہا ہے"۔
اس نے نیتن یاہو سے مخاطب ہوکر کہا ہے: "تم 10 سال کے عرصے سے سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے کے انعقاد میں شکست سے دوچار رہے ہو"۔
ادھر داخلی امور کی وزیر اور یہودی گھر (The Jewish Home) نامی جماعت کی راہنما آیلیت شاکید (Ayelet Shaked) کا رد عمل بھی دلچسپ ہے۔ شاکید کہتی ہے: "حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی دھمکیوں پر ہی تل ابیب نے اسرائیل اور لبنان کے درمیان آبی سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے پر آمادہ کیا"۔
شاکید نے سید حسن نصر اللہ کی اس دھمکی پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ "اگر لبنان آبی سرحدوں کے تعین کے سلسلے میں اپنے حقوق تک نہ پہنچے تو وہ کاریشن گیس فیلڈ کو دھماکے سے اڑائیں گے"۔
لبنان کی طرف سے فتح و کامیابی کا اعلان
سب سے اہم رد عمل لبنانی صدر میشل عون کا تھا جو انھوں نے سمجھوتے پر صہیونی ریاست کے دستخط کے ایک دن بعد ظاہر کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ صہیونی ریاست نے بحری حدود کے تعین کے سمجھوتے پر دستخط کر دیئے ہیں اور ہم نے بھی اپنے وزیر اعظم اور پارلیمان کے سربراہ کے ساتھ مشاورت کے بعد اس سمجھوتے کے ساتھ اتفاق کر لیا ہے۔
انھوں نے کہا: یہ سمجھوتہ لبنان کے مطالبات کے ساتھ ہمآہنگ اور سازگار ہے اور لبنان کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اور لبنان سمجھوتے میں اپنے کسی بھی مطالبے سے دستبردار نہیں ہؤا ہے اور ہم نے اپنے تمام حقوق حاصل کر لئے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں دو اہم نکتوں کا بھی اعلان کیا:
1۔ لبنان نے قانا کے آئل فیلڈ کو مکمل طور پر حاصل کر لیا ہے اور اس سمجھوتے کے ضمن میں صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔
2۔ دوسرا اہم نکتہ ہے کہ امریکہ اور فرانس نے ضمانت دی ہے کہ لبنان قانا تیل اور گیس فیلڈ سے تیل اور گیس نکال سکے گا۔
لبنان کی آزاد قومی تحریک (Free Patriotic Movement) کے راہنما اور لبنان کے سابق [عیسائی] وزیر خارجہ جبران باسیل (Gebran Gerge Bassil) کا موقف البتہ بہت دلچسپ تھا۔ انھوں نے کہا: حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنی مزاحمت و استقامت اور میزائلوں اور ڈرون طیاروں کی مدد سے ایک نیا قاعدہ متعارف کرایا کہ "قانا تیل اور گیس فیلڈ سے تیل اور گیس نکالنے کے بغیر، کاریش فیلڈ سے گیس اور تیل نہیں نکالا جا سکے گا"، اور اس قاعدے کو منوا دیا"۔
باسیل نے یہ اہم نکتہ بھی واضح کیا کہ "ہم نے پورا قانا فیلڈ حاصل کرلیا حالانکہ یہ فیلڈ پورا ہماری سرزمین میں واقع نہیں ہؤا ہے"۔
واضح رہے کہ یہ گذشتہ 22 سالہ عرصے میں غاصب ریاست پر حزب اللہ کی تیسری بڑی کامیابی تھی اور صہیونی اعترافات کے علاوہ، لبنان میں بھی اور خطے میں بھی، دوستوں نے بھی اور دشمنوں نے بھی اس کامیابی پر اپنے انداز سے خوشی کا اظہار کیا لیکن لبنان میں ہی امریکہ، فرانس اور آل سعود سے وابستہ سیاسی راہنماؤں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور لبنان کے قومی جشن و سرور میں حتی کچھ لفظ کہہ کر بھی شریک نہیں ہوئے ہیں؛ اور گویا وہ صہیونی غاصبوں کے سوگ میں شریک ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ اور اس کے سیکریٹری جنرل کی مقاومت اور ثابت قدمی نے ثابت کرکے دکھایا کہ صہیونی ریاست صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور پوری طاقت سے اس کے سامنے جم کر کھڑا ہونا چاہئے، تب ہی وہ بآسانی گھٹنے ٹیک لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://irna.ir/xjKMVw