اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

24 اکتوبر 2022

12:50:54 PM
1316660

جمہوریت میں ریاست اور راجہ کی تقدیس کا فلسفہ

مسلمانوں کا نظریۂ حکومت ویدوں اور پرانوں کے نظریۂ سلطنت سے الگ نہیں تھا ۔مسلمان بادشاہوں نے بھی مذہب کا اسی طرح سوئے استفادہ کیا جس طرح ہندوراجائوں نے کیا ۔ان کے درباروں میں موجود سیاست مدار اور علماء بادشاہ کی مرضی کے مطابق قوانین وضع کرتے اور اس کی شخصیت کو مقدس بناکر پیش کیا جاتا تھا ۔عوام کو اس کے ظلم و ستم پر مذہبی نقطۂ نگاہ سے قانع بنایاجاتا تھا اور عدل الہی کی دہائی دے کر اس کے غیر عادلانہ نظام پر صبر کی تلقین کی جاتی تھی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ موجودہ عہد میں ریاست کو مقدس اور وزیر اعظم کو شانتی پران اور منوسمرتی کے قانون کے مطابق ’’راجہ ‘‘ کا درجہ دینے کی کوشش جاری ہے ۔ایسا بیانیہ ترتیب دیاگیاہے جس کے مطابق ریاست کے عوام نے راجہ سے سوال کرنے کا حق بھی کھودیاہے ۔راجہ جو چاہے کرے لیکن عوام اس سے بازپرس نہیں کرسکتی ۔اس کی شخصیت کو مقدس اور اس کے رائج کردہ قانون کو مذہبی رنگ دیاجارہاہے تاکہ مذہب زدہ سماج راجہ کے آمرانہ نظام اور آئین مخالف نظریات کے خلاف احتجاج کرنے سے باز رہے ۔ایسا کرنے والوں کو ’’غدارِ وطن ‘‘ کا الزام دے کر مآب لنچنگ میں بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا جاتاہے یا پھر قانونی ایجنسیوں کا استعمال کرکے اسے رزق زندان بنادیا جاتاہے ۔راجہ کو ’’ دھرم کا رکشک‘‘ اور اس کے ذریعہ رائج نظام کو منوؔکے نظام سے جوڑا جارہاہے ۔اس پورے بیانیہ کو ’’ہندوتوا‘‘ کے نام سے متعارف کرایاگیاہے جس کا تفصیلی جائزہ یہاں ممکن نہیں !اس بیانیہ کے تحت ’’ون نیشن ،ون الیکشن ‘‘ کے نعرہ کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی کیونکہ اگر ریاست اور وزیر اعظم کی تقدیس کا فلسفہ رائج ہوگیا تو پھر جمہوریت کا ووجود ہی ختم ہوکر رہ جائے گا اور الیکشن جمہوریت میں ہوتے ہیں شاہی نظام میں نہیں!

ہندوستان میں مسلمانوں سے پہلے اور مسلمان عہد میں ریاست کا نظریہ شاہی حکومت کا نظریہ تھا ۔بادشاہ کی ذات کو تمرکز حاصل تھا ۔وہ ہر طرح کے احتساب سے بالا تر ’’الوہی درجات ‘‘ کا حامل سمجھا جاتا تھا ۔مہابھارت اور شانتی پران کے مطابق ریاست کے قیام ،اس کی بقا اور امن و امان کے استقرار کے لئے بادشاہ کا ہونا ضروری ہے ۔منوؔ اور کوٹلیا کی نظر میں معاشرے کو طوائف الملوکی اور انتشار سے محفوظ رکھنے کے لئے بادشاہت کا قیام ضروری ہے ۔ان کے مطابق ’جس ملک میں بادشاہ موجود نہیں ہوتا تھا وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے ۔خارجی طاقتیں اس ملک کے نظام پر مسلط ہوکر اس کےباشندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہیں‘ ۔(گھوشال ۔مہابھارت ص۱۷۴۔بینی پرشاد۔مہابھارت ۔ص۲۷ تا ۲۹)شانتی پران کے مطابق انسان کے لئے پہلے بادشاہ کا ہونا ضروری ہے اور پھر بیوی۔بیوی کے بعد دولت و ثروت ۔کیونکہ اگر بادشاہ نہ ہو تو انسان بیوی اور دولت سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ۔(شانتی پران ۵۷۔ص۴۱)جے ۔کے ۔بلنچلی نے اپنی کتاب میں منوؔ کے دھرم شاستر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ بادشاہ کا جسم پاک اور روح مقدس ہے کیونکہ اس کی ترکیب ان عناصر سے ہوتی ہے جن کی تخلیق دنیا کے آٹھ خدائی محافظین سے ہوتی ہے ۔وہ آفتاب کی طرح آنکھ اور دل کو خیرہ کردیتاہے اور کوئی شخص اسے رودر رو دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا ۔خدانے اسے تمام مخلوق کی حفاظت کے لئے پیداکیاہے ۔بچپن میں بھی کوئی اس کی تحقیر نہیں کرسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایک معمولی انسان ہے کیونکہ ایک بہت بڑی خدائی اس کے اندر موجود ہوتی ہے ۔(منو کا دھرم شاستر بحوالہ نظریۂ سلطنت۔از ڈاکٹر جے۔کے۔بلنچلی ۔ص۳۶۵۔مترجم قاضی تلمذ حسنین )اس کے برعکس بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا تھاکہ وہ نیکی اور بدی کا معیار طے کرسکے ۔رعایا کے ساتھ مذہبی رہنمائوں کے لئےبھی ان کی لغزشوں اور نیکیوں کی بنیاد پر سزا و جزا تجویز کرسکے ۔لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ بادشاہ کی خطائوں کی بنیاد پر اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت کرسکے ۔بقول ستیش چندر ’’ علماء کو عزت و احترام تو دیا جاتا تھا مگر حکومت ان کے مشورے پر نہیں چلتی تھی ۔حکومت سیاسی ضرورت اور حکمراں طبقے کے مفادات کے خیال پر چلتی تھی ‘‘۔(عہد وسطیٰ کا ہندوستان حصہ اول۔از ستیش چندر۔ص۳۳۷)یہ صورتحال مسلمان عہد سلطنت اور اس سے پہلے بھی موجود تھی ۔جے۔کے۔بلنچلی کے مطابق’’ہندوستانی بادشاہ کے گرد پروہتوں کا مجمع رہتا تھا ۔تخت نشینی کے وقت لازم تھا کہ وہ اس کی تقدیس کریں ۔سات یا آٹھ وزرا جن سے تمام معاملات میں صلاح لینا اس پر لازم ہوتا تھا وہ تقریباً سب کے سب برہمن ہوتے تھے ۔‘‘(نظریۂ سلطنت ۔از جے۔کے۔بلنچلی ۔ص۳۶۵) آج بھی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر برہمنوں کا تسلط ہے اور ان کے مطابق ہی حکومتی معاملات طے پاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں اقلیتی و پسماندہ طبقات کی فلاح و ترقی کے لئے کوئی مناسب لایحۂ عمل وجود میں نہیں آسکا ۔جو اسکیمیں اور منصوبے حکومتی سطح پر منصہ شہود پر آتے ہیں ،ان میں اخلاص کا فقدان نظر آتاہے ۔ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لئے سالہا سال کوشش کی جاتی ہے ،اس کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ۔پسماندہ طبقات کو ان کی ترقی اور فلاح کا فریب دے کر اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتاہے ۔انہیں یہ باورکرایا جاتاہے کہ حکومت ان کی طرفدار اور مخلص ہے ۔راجہ ان کی ترقی کے لئے فکرمند ہے جبکہ حکومتی سطح پر انہیں مزید کمزور کرنے اور کچلنے کے منصوبے بنتے رہتے ہیں ،تاکہ وہ مزاحمت اور بغاوت کے جذبے سے محروم رہیں۔

کوٹلیاؔ کے مطابق بادشاہ اپنی خدمت کے بدلے میں عوام سے ٹیکس وصول کرتاہے ۔ٹیکس کی وصولی کے لئے افسر اور گورنر مقرر کئے جاتے تھے ۔ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں ۔آج بھی یہی صورتحال کارفرما ہے ۔ریاست کا مالک جسے جمہوری نظام میں ’’وزیر اعظم ‘‘ یا’’صدر‘‘ کہاجاتاہے اپنی خدمات کےعوض ریاست کے عوام سے ٹیکس وصول کرتاہے ۔ٹیکس کی وصولی کے لئے یہ جواز پیش کیاجاتاہے کہ ٹیکس عوام کی سہولیات اور ان کی ترقی کے لئے معین کیا جاتاہے ۔لیکن جی۔ایس۔ٹی ۔نافذ کرنے سے پہلے اقتصادی ڈھانچہ کو مد نظر نہیں رکھا گیا ،جیساکہ الگ الگ رپورٹس سے معلوم ہوتاہے ۔نوٹ بندی اور اس کے بعد جی۔ایس۔ٹی۔ کے نفاذ نے اقتصاد کے بنیادی ڈھانچہ کو متزلزل کردیا ۔اپوزیشن نے اس ٹیکس وصولی کو ’گبّرسنگھ ٹیکس‘‘ کا نام دیا تھا جو اس کے اصول و نظریات کے مطابق اٹ پٹا محسوس نہیں ہوا۔جو لوگ نوٹ بندی اور جی۔ایس۔ٹی ۔کے ڈرافٹ کے متعلق حق معلومات(آرٹی آئی) کے تحت سوال کرتے ہیں انہیں تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا ۔اکثر آرٹی آئی دفاتر میں انفارمیشن کمشنر کا تقررنہیں کیاجارہاہے تاکہ حق معلومات کے تحت موصول ہونے والی درخواستیں دھول پھانکتی رہیں۔یہ سراسر جمہوری قدروں کے خلاف اور رعیت کی آواز کو دبانے جیسا عمل ہے۔جمہوری نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی جواب دہی طے ہونی چاہیے ۔عوام اپنے حقوق اور مسائل کے حل کے لئے وزیر اعظم اور صدر تک سے سوال کرنے کا حق رکھتی ہے ۔لیکن موجودہ ہندوستان میں تمام معیارات بدل چکے ہیں ۔وزیر اعظم کی ذات کو اس قدر مقدس بنادیا گیا کہ عوام ان سے سوال کرنے کا حق کھوچکی ہے ۔گذشتہ آٹھ سالوں میں وزیر اعظم نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی ۔میڈیا کے سامنے آئے بھی تو پہلے سے طے شدہ سوالوں کے جواب دینے کے لئے یا پھر صحافی کی جگہ کسی فلم اداکارکو سوال پوچھنے کے لئے منتخب کرلیا گیا تاکہ بنیادی مسائل کے بجائے سوالات کا دائرہ وزیر اعظم کی ذاتی پسند و ناپسند تک سمٹ کر رہ جائے ۔وزیر اعظم ظاہری طورپر تو یہ کہتے ہیں کہ وہ عوام کے خدمت گذار ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس نظر آتاہے ۔انہوں نے اپنی ذات کو ’راجہ ‘ کے اختیارات کا حامل بنالیا ہے ۔قدیم ریاستی تہذیب کے مطابق ’راجہ ‘ کی ذات مقدس اور بے عیب تصور کی جاتی تھی ،آج جمہوری نظام میں وزیر اعظم کو راجہ اور ان کی ذات کو مقدس سمجھا جارہاہے ،جس کے لئے پوری توانائی کے ساتھ بیانیہ آمادہ کیا گیا ۔منو ؔ کے مطابق بادشاہ کی تخلیق دنیا کے آٹھ عناصر کے خمیر سے ہوئی ہے ۔اس لئے وہ اپنی نورانیت میں تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہوتاہے ۔وہ انسان کے روپ میں ایک دیوتا ہوتاہے ۔وہ اپنے اندر بھگوان وشنوؔ کی روح کو جذب کرلیتاہے اسی لئے دنیا اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے جس طرح خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے ۔(گھوشال ص ۱۸۱۔۳۸۳)آج رعایا وزیر اعظم کے سامنے سجدہ ریز ہے اور ان سے سوال پوچھنے کو جرم تصور کیا جاتاہے ۔یہ بیانیہ بعض افراطی تنظیموں کے ذریعہ آمادہ کیا گیا لیکن اسے عوام کے ذریعہ نافذ کرانے کی کوشش کی گئی ۔رعایا کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس بیانیہ کے تحت وہ اپنے جمہوری حقوق گنواچکی ہے ۔کیونکہ اسے مذہب کی افیون پلادی گئی ہے جس کے نشہ میں دُھت رعیت اپنی فہم و فراست کھوچکی ہے ۔

مسلمانوں کا نظریۂ حکومت ویدوں اور پرانوں کے نظریۂ سلطنت سے الگ نہیں تھا ۔مسلمان بادشاہوں نے بھی مذہب کا اسی طرح سوئے استفادہ کیا جس طرح ہندوراجائوں نے کیا ۔ان کے درباروں میں موجود سیاست مدار اور علماء بادشاہ کی مرضی کے مطابق قوانین وضع کرتے اور اس کی شخصیت کو مقدس بناکر پیش کیا جاتا تھا ۔عوام کو اس کے ظلم و ستم پر مذہبی نقطۂ نگاہ سے قانع بنایاجاتا تھا اور عدل الہی کی دہائی دے کر اس کے غیر عادلانہ نظام پر صبر کی تلقین کی جاتی تھی ۔مسلمانوں نے بادشاہ کو ظلّ الہی کا درجہ دیا تو ہندوئوں نے اس کی ذات کو دیوتائوں کا روپ قرار دیا ۔اس طرح ہندو اور مسلمان دونوں ریاستوں میں بادشاہ کی حیثیت کو اولیت حاصل رہی اور اس کے ظلم و ستم پر بھی مذہب کی روشنی میں مختلف جواز قائم کئے گئے ۔مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر حصے پر حکومت کی لیکن ان کی حکومت کا نظریہ اسلامی نہیں تھا ۔ان کی انفرادی زندگی بھی مذہب کے اصولوں کے برخلاف بسرہوتی تھی ۔البتہ بعض حکمران خالص مذہب کے پیروکار بھی ہوئے ہیں لیکن انہوں نے سیاسی معاملات میں مذہب سے روشنی حاصل نہیں کی ۔(سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات۔ص۴۱)

غرض کہ ہندوستان میں پھر وہی نظام لوٹ کر آرہاہے جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے عوام نے صدیوں جدوجہد کی ۔سیاست مداروں کے تقدس کا یہ فلسفہ ویدوں اور پرانوں سے لیاگیاہے ۔ہندوراشٹر قائم کرنے کی فکر میں منوؔ کے جس قانون کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے ،اس کا مطالعہ ہی انسان کو قدیم غلامی کے تصور سے دوچار کردیتاہے ۔ہندوراشٹر کے قیام کے لئے رواں سال فروری ماہ میں پریاگ راج کے ماگھ میلے میں دھرم سنسد منعقد ہوئی تھی ۔دھرم سنسد میں ہندوراشٹر کی جو تجویز پاس کی گئی اس کے تحت ۳۰ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کو اس کے آئین کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔نئے آئین کاپہلا مسودہ جو ۳۲ صفتحات پر مشتمل ہے، پیش کیا جاچکاہے جس کےاہم نکات منظر عام پر ہیں جو انتہائی فکر انگیز اور چونکانے والے ہیں ۔ہندوستان میں موجود بعض روشن دماغ دانشور اس فکر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور مسلسل لکھ اور بول رہے ہیں ۔کسی بھی نظام کو بغیر چوں و چرا کے برداشت کرلینا عوام کے حق میں نہیں ہے ۔اس لئے ایسی فکروں کے خلاف مزاحمت اور احتجاج ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲