اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

15 ستمبر 2022

4:13:14 PM
1305844

مطلق جمہوریت، ایک بیہودہ آرزو!

بی بی سی موروثی بادشاہی نظام کا دفاع کیوں کرتا ہے؟

مغربی نظام میں استحکام کا محور و مداد، فرسودہ بادشاہی نظام ہے جس کا کوئی عقلی اور منطقی جواز نہیں ہے اور صرف خون اور وراثت اس کی بنیاد ہے۔ لیکن اسلام کی دینی فکر میں "عدالت اور فقاہت" ہے، دو ایسی شرطیں جو علم اور صداقت کو مد نظر رکھتی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مغربی نظام اپنی مادی عقل سے سیاسی نظام میں ایک "استحکام آفرین محور" کی ضرورت کو سمجھ گئے ہیں اور اس جمہوریت زدہ دور میں - جبکہ تیسری دنیا کو جمہوریت کے ہتھوڑے سے کچلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں - کسی شرمندگی کے بغیر پوری قوت اور وسائل کو بروئے کار لا کر اپنے ہاں کی بادشاہت کا آشکارا دفاع کرتے ہیں؛ بی بی سی کے اجرتیوں کا گریہ و بکاء اس کا ثبوت ہے۔

1۔ سوال: موروثی سلطنت کو برطانیہ، بلجیئم، ہالینڈ، ہسپانیہ اور کوئی دوسرے بظاہر جمہوری ممالک میں - جن کو لبرل جمہوریت کا گہوارہ کہا جاتا ہے - محفوظ رکھا جاتا ہے اور اس قدر چمک دمک کے ساتھ دکھایا جاتا ہے؟

جواب: اسی جملے کا جواب ملکہ کی ایک تصویر پر ایک جملے کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے جس کے ضمن میں BBC نے اقرار کیا ہے: "بدلتی دنیا میں استحکام کا محور"۔ یعنی یہ کہ وہ تجربے سے سمجھ چکے ہیں کہ "مطلق جمہوریت ایک بیہودہ اور انتہائی رومینٹک آرزو" کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیشہ، تمام مسائل میں، جمہوری رویہ اپنایا نہیں جا سکتا، ایسے مسائل پیش آتے ہیں "آخرکار ایک ہی فرد کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے"۔

2۔ اسلام - خاندانی نظام اور سیاسی نظام کے لئے مغرب کے برعکس، تجربے سے نہیں بلکہ دینی عقلیت کی رو سے، ایک "ولی" کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو استحکام اور توازن کا ضامن ہے۔ خاندان معاشرے کا ابتدائی مرکز ہے جس کے لئے "آخری فیصلہ کرنے والے" کی ضرورت ہے؛ اس لئے کہ تعطل کا شکار نہ ہو، خاندان میں، باپ یہ کردار ادا کرتا ہے۔ وسیع تر سطح پر یہی کردار "امام" کو ادا کرنا ہوتا ہے؛ وہ اگرچہ مشورہ کرتا ہے اور اپنے فیصلوں میں دوسروں کی شراکت کے اسباب فراہم کرتا ہے، اور آخرکار اس لئے کہ تعطل پیش نہ آئے، وہ معاشرے کی راہنمائی کرتا ہے۔

وہی کار خاص جو غیبت کبریٰ کے زمانے میں ولایت مطلقۂ فقیہ کے ذمے ہے، سیاسی انسداد سے عبور کرنے والی، استحکام کا محور۔

3۔ مغربی نظامات جو مادی عقل کے ساتھ، سیاسی نظام میں، ایک استحکام آفرین محور کی ضرورت کا ادراک کرچکے ہیں، اور اس جمہوریت زدہ زمانے میں - جبکہ تیسری دنیا کو جمہوریت کے ہتھوڑے سے کچلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں - شرمندگی اور کسی طرح کی جھجھک کے بغیر، اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر بادشاہت یا "قائد خاص" (امریکی صدر کی طرح جس کے پاس خاص قسم کے اختیارات ہیں) کا آشکارا دفاع کرتے ہیں۔ بی بی سی کے اجرتیوں کا گریہ و بکاء اس کا ثبوت ہے۔

لیکن وہ دوسری سرزمینوں میں اسی استحکام آفرین محور کو آمرانہ، استبدادی اور جمہوریت سے متصادم، قرار دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اس محور اور اس کی منزلت اور کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، اور ان سرزمینوں میں استحکام کے خلاف ہے!

4۔ بطور مثال: عراق کی ابتر سیاسی صورت حال، ایک استحکام آفرین کی ضرورت کا عینی ثبات ہے؛ صرف اسی موقع پر عارضی طور پر کسی حد تک حالات بہتر ہو جاتے ہیں، اور باقی امور مسلسل اختلافات سے دوچار ہیں۔

5۔ مغربی نظام میں استحکام کا محور و مداد، فرسودہ بادشاہی نظام ہے جس کا کوئی عقلی اور منطقی جواز نہیں ہے اور صرف خون اور وراثت اس کی بنیاد ہے۔ لیکن اسلام کی دینی فکر میں "عدالت اور فقاہت" ہے، دو ایسی شرطیں جو علم اور صداقت کو مد نظر رکھتی ہیں۔

دیکھئے، وہ سامراجی، بدنام، قدامت پسند اور قرون وسطیٰ سے متعلق سسٹم کی مدح و ثناء کرتے ہیں اور اسلام کے اس عقلی اور منطقی نظام کی مذمت!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر حسین محمدی سیرت، اسسٹنٹ پروفیسر، سیاسیات و اسلامی تعلیمات

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110