اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

7 ستمبر 2022

9:13:48 AM
1304242

آخری سوویت راہنما ميخائیل گورباچوف کو امام خمینی کے نصائح، نئے زاویے سے

سوویت اتحاد کا زوال، دنیا میں حکمرانی کے دو ماڈلوں میں سے ایک - کمیونزم اور سوشلزم - کی دائمی رخصتی سمجھا جاتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ سوویت اتحاد کے آخری راہنما میخائیل سرگئی وچ گورباچوف گذشتہ ہفتے چل بسے۔ گورباچوف کے لئے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کے نصائح کا نیا جائزہ، آج کے زمانے کے سربراہوں، صدور اور بادشاہوں کے لئے نیا پیغام مرتب کرتا ہے۔ امریکی گذشتہ تین دہائیوں سے ایران کی سیاست میں ایرانی گورباچوفوں اور یلتسنوں (Yeltisins) کی تلاش میں مصروف ہیں۔ جواب میں ایرانیوں نے سنہ 1999ع‍، سنہ 2009ع‍ اور سنہ 2019ع‍ کے فتنوں کے دوران اپنی عدیم المثال بیداری اور کیاست کے ذریعے یہ تاریخی پیغام واشنگٹن کے حکمرانوں کو بھیجوایا کہ: "ہم نے اپنے یہاں انہیں تلاش کیا لیکن نہ مل سکے؛ تم بھی تلاش نہ کرو، یہاں کوئی گورباجوف یا بورس یلتسن نہیں ملے گا"۔

گورباچوف نے 45 سال کی عمر میں سوویت اتحاد نامی سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی اور 1985ع‍ سے 1991ع‍ تک کے اپنے چھ سالہ عرصۂ اقتدار میں جدید ترین نظم و ترتیب کی مدد سے قائم ایک طاقتور سلطنت کے نٹ بولٹ کھول دیئے اور اس کو بڑی فراخدلی سے اپنے حریف اور رقیب کے سپرد کیا۔

سوویت اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم دنیا میں حکمرانی کے دو ماڈلوں (سرمایہ داری اور کمیونزم یا سوشلزم) میں سے ایک - یعنی کمیونزم اور سوشلزم - کی دائمی رخصتی سمجھی جاتی ہے۔

ولادیمیر ایلچ لینن نے 1917ع‍ کے آغاز میں - سوویت اتحاد نامی سلطنت کی بنیاد رکھتے وقت - سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی (پولٹ بیورو) کے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "کامریڈو! ہماری تین اہم ذمہ داریاں ہیں، 1۔ تنظیم سازی، 2۔ تنظیم سازی، 3۔ تنظیم سازی!"۔ وہ "مکالمے (ِDiscourse)" اور "حکمرانی کے قانوی جواز (Legitimacy)" کے مسئلے کو "تنظیم" اور "آہنی" نظام کی مدد سے حل کرنا چاہتے تھے۔ سوویت اتحاد کے راہنما 70 سال بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ روش اور نقطۂ نگاہ "کارآمد" اور "عوامی پسندیدگی" کا سبب نہیں بنتا۔

مورخہ 20 جون 1989ع‍ کو، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے ماسکو کا دورہ کیا۔ راقم ہاشمی رفسنجانی کے وفد میں نامہ نگار کے طور پر شامل تھا اور مجھے دو بڑی طاقتوں میں سے ایک - جس کا سکہ وسیع و عریض سوویت سلطنت میں رائج تھا – کا قریب سے جائزہ لینے کا موقع ملا تھا۔

ایک دن تنہائی میں، کریملن کی حدود میں چہل قدمی کر رہا تھا تو میری نظریں میدان کی باڑوں پر پڑیں جو فرسودہ ہو چکی تھیں۔ ایک معمر خاتون سڑک کے پتھریلے فرش پر جھاڑو دے رہی تھی اور کچھ فوجی وردی میں ملبوس بزرگ بینچ پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے جن کے پاؤں بظاہر افغان جنگ میں کٹ چکے تھے۔ 140 روز قبل امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) نے گورباچوف کو پیغام بھیجا تھا چنانچہ میں نے یہ منظر دیکھ کر اس پیغام کا ذہنی جائزہ لیا۔

اسی دن شام کو ماسکو کے بازار کا دورہ کیا تو دیکھا کہ دکانوں کی الماریوں میں موجود ضروری اشیاء کی مقدار خریداروں کی تعداد سے بہت کم ہے۔ تو مجھے یقین آیا کہ سلطنت کی بساط لپٹنے میں کچھ زیادہ دن باقی نہيں رہے ہیں۔

سوویت سلطنت ابھی برپا تھی جب امام نے گورباچوف کے نام اپنا پیغام بھجوایا تھا، چنانچہ یہ پیغام ایران اور مشرقی طاقت کے مرکزی عنصر "روس" کے باہمی تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا، روسی زاروں (Tsars of Russia) کے بعد کا روس، سوویت اتحاد کےٹوٹنے کے بعد والے روس سے مختلف تھا، اتحاد ٹوٹنے کے بعد کا روس اس کے بعد آنے والے یلتسن کے دور کے روس سے بالکل مختلف تھا اور تیسرے ہزارے کے پیوٹن کا جدید روس سے بالکل مختلف ہے۔ جو بھی اس فرق میں شک کرے وہ سیاسی ان پڑھ ہے اور سفارتکاری سے ناواقف۔

کیا وہ سلوک اہمیت رکھتا ہے جو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) نے روس کے ساتھ روا رکھا؟

امام نے چند ہی جملوں میں روسی فکری اشرافیہ کے فلسفیانہ علم و معرفت میں تکنیکی اور فکری تبدیلی کا اہتمام کیا۔ حوزہ علمیہ قم کے ایک اعلیٰ پائے کے فقیہ، نامی گرامی سیاستدان، فلاسفر، ریاضی دان اور فلاسفر آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی اور ایک عظیم انقلابی شخصیت - وہ جنس نسوان میں سے - مرحومہ محترمہ مرضیہ دباغ امام کے خط کے حامل وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ قصہ یہ تھا کہ امام نے روسی فکری اشرافیہ کے ذہنی اور فکری اور ذہنی و فلسفی نظام میں کچھ تبدیلیاں کیں۔

امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کا پیغام مختصر سا تھا جو 16 نکات پر مشتمل تھا:

1۔ کمیونسٹ مکتب نے دنیا کے انقلابی فرزندوں کو آہنی حصار میں قید کر لیا ہے؛

2۔ دین و مذہب اور خدا کو معاشرے سے ہٹانے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کیجئے؛

3۔ دنیا کے مسائل کا حل کا حقیقی انتظام صرف دین کے ذریعے ممکن ہے؛

4۔ مغربی دنیا کے سبز باب ایک سراب اور وہم ہے، حقیقت کہیں اور ہے؛

5۔ دنیا کی سرمایہ داری کے مرکز کی گود میں بیٹھنے سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا؛

6۔ مغربی دوسری صورتوں میں، ان ہی مسائل میں الجھا ہؤا ہے؛

7۔ آپ کا بنیادی مسئلہ خدا پر عدم اعتقاد اور وجود اور خلقت کا مبدأ ہونے کے ناطے خدا کے خلاف آپ کی طویل اور بیہودہ جنگ ہے؛

8۔ مارکسزم انسان کے حقیقی احتیاجات میں سے کسی ایک احتیاج کی تکمیل پر قادر نہیں؛

9۔ چین کے راہنما نے کمیونزم پر پہلی ضرب لگائی، اور آپ نے دوسری اور آخری ضرب مارکسزم کے جسم پر لگا دی ہے؛

10۔ ہوشیار رہئے مارکسزم کے مفاہیم توڑتے ہوئے اپنے مغرب اور شیطان بزرگ کے جال میں پھنسنے سے بچ کر رہئے؛

11۔ دو مادی اور الٰہی نظریہ ہائے کائنات پر توجہ مرکوز رکھئے؛ عالم وجود میں عالم غیب بھی ہے اور عالم شہادت بھی؛ عالم غیب افسانہ نہیں ہے؛

12۔ علم و معرفت کی حقیقت مادہ سے مجرد (Immaterial) ہے، ہر قسم کی فکر غیر مادی ہے، اور اس پر مادہ کے قواعد لاگو نہیں ہوتے؛

13۔ الٰہی نظریۂ کائنات کے ادراک کے لئے فارابی، بوعلی سینا، ملا صدرا اور محی الدین عربی کی علمی حصولیابیوں کا ادراک ضروری ہے؛

14۔ اپنے انتہائی ذہین ماہرین کو قم روانہ کیجئے تاکہ وہ علم و معرفت کی منازل سے آگاہ ہو جائیں، اس سفر کے بغیر ان سے آگہی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے؛

15۔ آپ سے چاہتا ہوں کہ سنجیدگی سے اسلام کے بارے میں تحقیق و تفحص کریں، اسلام اعلیٰ اور عالمگیر اقدار کا حامل ہے، اور اقوام عالم کی نجات کا سبب بن سکتا ہے اور بنی نوع انسان کے مسائل کی گرہ کھول سکتا ہے؛

16۔ اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام کے عظیم ترین اور طاقتور ترین مرکز کے طور پر آپ کے نظام کے اعتقادی خلاؤں کو پر کر سکتا ہے۔


گورباچوف نے تقریبا دو ماہ بعد امام کے خط کا رسمی جواب سوویت اتحاد کے اس وقت کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیوارڈ ناڈزے کے ذریعے تہران بھجوایا۔

گورباچوف کے جواب کے چند نکات نمایاں تھے:

1۔ آپ کا پیغام انسان کے مقدرات کے سلسلے میں گہرے تحفظات کا حامل ہے؛

2۔ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور معیاری مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں؛ آپ کا خط مفاہیم سے سرشار ہے اور سوویت اتحاد کے قیادت بورڈ نے ان کا گہرا مطالعہ کیا؛

3، اسلامی انقلاب آپ کی قوم کا انتخاب ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی پشت پناہی کرتے ہیں؛

4۔ ہم سوویت اتحاد میں - طاقت کے استعمال اور مورچہ بندیوں کے بغیر - ایک پرامن انقلاب میں مصروف ہیں؛ تعمیر نو اور نظر ثانی کا سلسلہ جاری ہے؛

5۔ سماجی حلقوں کے نمائندوں اور علماء کے باہمی رابطوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔


اگرچہ گورباچوف نے فلسفہ پڑھا تھا لیکن انھوں نے فلسفیانہ اور فکری بحث - جو امام کے خط کے دو تہائی حصے پر محیط تھی - سے پرہيز کیا۔ لیکن روس کے دانشور اور علمی حلقوں، یہاں تک کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ممتاز مفکرین نے بھی، امام کے پیغام کو سنحیدگی سے لیا اور ماسکو اور بیجنگ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے فلسفہ و سماجیات میں تبدیلیاں رو نما ہوئیں۔

بدقسمتی سے ایران سمیت عالم اسلام کے یہاں کے علمی و فلسفی مراکز، جامعات اور سفارتکاری کے شعبے اس عظیم فکری واقعے سے غافل رہے، تاہم روس میں اس واقعے کو اہمیت دی جا رہی ہے اور آج بھی ارتھوڈاکس عیسائیت اور اسلام اور تشیّع کے فلسفی نظریات کے باہمی قربتوں نیز آخر الزمان سے متعلق موضوعات پر بے شمار رسالے (Thesis) لکھے گئے ہیں اور لے جا رہے ہیں۔

نیز چینی ثقافت میں کنفیوشس کی تعلیمات کے ساتھ شیعہ اور اسلامی افکار کی مماثلت اور قربت کے بارے میں مقالے اور رسالے لکھے گئے ہیں اور یہ مقالے روس اور چین میں انسانیات کے میدان میں سائنسی اور فکری اجلاسوں میں پیش کئے گئے ہیں اور سیاسی مفکرین کے ذہنوں پر سایہ فگن ہیں۔


شیورڈناڈزے گورباچوف کا خط لے کر امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) سے ملے تو امام نے اس کا مختصر سا جواب یوں دیا: "میں جناب گورباچوف کے لئے بڑی دنیا، یعنی موت کے بعد کی دنیا - جو لافانی دنیا ہے - کی طرف ایک دریچہ کھولنا چاہتا تھا، میرے پیغام کا بنیادی محور یہی تھا؛ مجھے امید ہے کہ وہ اس میدان میں ایک بار پھر کوشش کریں گے"۔

گورباچوف نے وہ موقع کھو دیا، اور اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی اور صرف دو سال بعد ایک گولی چلائے بغیر، سوویت اتحاد کی ارضی اور فکری عمارت کے اجزاء دھڑام سے زمین پر گر پڑے؛ لیکن چین اور روس میں جن لوگوں کو امام کا پیغام وصول کرنا چاہئے تھا، انھوں نے اسے اچھی طرح سے وصول کیا۔

اس بیان کی سند اور دستاویز یہ ہے کہ واشنگٹن اپنے منظور نظر عالمی نظام میں "روس" اور "چین" کو ضمّ نہیں کرسکا۔

اس سے بھی بڑی اور اہم سند امریکہ کے اندر کی سیاسی اور سماجی شکست و ریخت اور آسمان سیاست پر اس ملک کے دو قطبی سیاسی نظام میں سرمایہ داری (Capitalism) کی ہڈیوں کے چٹخنے کی سنائے دینے والی آوازوں سے عبارت ہے۔ ہم اس مدعا کی بصری دستاویز کو بڑے امریکی شہروں کی سڑکوں پر اور گلیوں میں کارٹونوں کی بنی جھونپڑیوں میں نچلے طبقے کی زندگی کی افسوسناک زیست کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔


پروفیسر ڈاکٹر الیگزینڈر [گیلیویچ] دوگین (Aleksandr [Gelyevich] Dugin) اور بہت سے دوسرے مفکرین ماسکو یونیورسٹی کے عمرانیات اور فلسفہ کے شعبے میں فارابی، بو علی سینا، ملا صدرا اور ابن عربی کے فلسفیانہ نقطہ نظر پر تزویراتی انداز سے غور و فکر میں مصروف ہیں، جو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) نے اپنے پیغام میں - ابدیت کا دریچہ کھولنے کے عنوان سے - گورباچوف کو تجویز کیا تھا۔

راقم نے پانچ سال قبل "جدید روس" کے عنوان سے ایک مضمون میں، ماسکو یونیورسٹی میں اس فکری اور مکتبی نقطۂ نظر کے آثار و برکات کا مطالعہ پیش کیا۔ یہی فکری کوشش بیجنگ یونیورسٹی میں بھی برسوں سے جاری ہے اور اس یونیورسٹی میں ایرانی فلاسفر پروفیسر ڈاکٹر غلام رضا اعوانی درجنوں طالبعلموں کو فلسفہ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح پر مقالات اور رسالے لکھنے کی تجویز دے رہے ہیں۔

مغرب گورباچوف کو امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کے پیغام، کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ سی ائی نے برسوں سے ڈاکٹر الیگزینڈر دوگین پر دہشت گردانہ حملہ کروانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی گوکہ ان کی اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں ان کی بیٹی جان دے بیٹھی لیکن خوش قسمتی سے وہ نئے عزم اور نئی نگاہ کے ساتھ زندہ ہیں۔ مغربی نظام کے فکری گماشتے نیزعالم اسلام میں اسی نظام کی اندھادھند پیروی کرنے والے مبینہ دانشور اور اخبار نویس - بالخصوص وہ جو شعبہ فلسفہ کے طالب علم بھی رہے ہیں - ڈاکٹر دوگین کو راسپوٹین (Rasputin) اور پیوٹن کو پرانے روس کا زار (Tsar of Russia) قرار دیتے ہیں؛ لگتا ہے ان کا اسرائیلی ساختہ قلم موساد اور سی آئی کی روشنائی میں ڈوب کر مغرب کی قصیدہ گوئی کی انتہا پر اسی کے املاء کردہ الفاظ من و عن دہرانے پر مامور ہوکر سیاسی مشق لکھ رہا ہے۔ سیاسی دانش اور دنیا سے آگہی، ہمیں کہتی ہے کہ تیسرے ہزارے (Third Millennium) کا چین اور روس عالمی سرمایہ داری نظام میں ہضم نہیں ہونے جا رہے ہیں؛ امپریلزم کا نظام ہضم ان دو ممالک کے ہضم کرنے سے بالکل عاجز ہے۔ ان کا نظام انہضام امریکہ اور یورپ میں مسلسل خرابی سے دوچار ہو چکا ہے اور مغرب شدید بدہضمی کا شکار ہے۔ یوکرین کی جنگ بتا رہی ہے کہ جو کچھ امریکہ اور یورپ نے "عالمی سوسائٹی" اور "یک قطبی نظام" کے طور پر نگل لیا تھا، اب اگلنا پڑ رہا ہے اور اس اذیت ناک قے کی بدبو پانچ براعظموں کے باسیوں کی ناکوں کو ستا ر ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: محمد کاظم انبارلوئی، سینئر صحافی اور سیاستدان

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110