اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

6 ستمبر 2022

7:41:07 AM
1303874

طالبان کے ساتھ امریکہ کا دوہرا رویہ / کانگریس کا طالبان پر عدم اعتماد یا 9 ارب ڈالر کی لالچ؟

امام صادق(ع) انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبر نے لکھا: اب طالبان کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی بلاواسطہ اور بالواسطہ کوششوں کے ساتھ ساتھ اور طالبان حکومت کے موقف کو ضمنی یا واضح طور پر قبول کرنے یا نہ کرنے، کے حوالے سے اس جماعت کے تئیں امریکہ کا دوہرا موقف بالکل واضح ہو چکا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امام صادق(ع) انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر صادق سلیمی بنی، نے "طالبان کے ساتھ امریکہ کا دوہرا رویہ / کانگریس کا طالبان پر عدم اعتماد" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

امریکہ کے افغانستان سے فرار ہونے اور افغانستان پر طالبان کی حکمرانی کے دوبارہ بحال ہونے کے ایک سال بعد، طالبان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بدستور پیچیدہ اور بحث انگیز ہیں۔ طالبان کے ساتھ مبہم تعلقات کا ایک پہلو اس جماعت پر امریکی کانگریس کا عدم اعتماد ہے۔

اب طالبان کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی بلاواسطہ اور بالواسطہ کوششوں کے ساتھ ساتھ اور طالبان حکومت کے موقف کو ضمنی یا واضح طور پر قبول کرنے یا نہ کرنے، کے حوالے سے اس جماعت کے تئیں امریکہ کا دوہرا موقف بالکل واضح ہو چکا ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ امریکی رویے پر طالبان کا رد عمل کیا ہوگا، چنانچہ تجزیہ کاروں کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرے گا، اور اسی بنا پر امریکہ نے ابھی تک دباؤ کے متعدد اوزاروں کو محفوظ کیا ہؤا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے اب تک طالبان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا ہؤا ہے، اور اس مضمون میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی جائے گی۔

امریکی کانگریس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے

طالبان کے بر سر اقتدار آنے پر، کانگریس کے متعدد ارکان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں اپنی حکومت کی مخالفت کا اظہار کیا۔ کچھ اراکین نے وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا ہے کہ اس حکومت کو تسلیم کرنے سے اجتناب کرے۔ بعض اراکین نے ایسے قوانین کی منظوری کا مطالبہ کیا جن کی رو سے طالبان کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں امریکی حکومت کے اختیارات کو محدود کیا جا سکے۔ بطور مثال:

1۔ ڈین کرینشا (Dan Crenshaw) نے 24 اگست 2021ع‍ کو واضح کیا کہ امریکہ کو طالبان کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ نہيں دینا چاہئے۔

2۔ سینٹر مارکو روبیو (Marco Rubio) نے 14 ستمبر 2021ع‍ کو طالبان کو تسلیم کرنے کے لئے امریکی پالیسی کے نفاذ یا اس پر عمل درآمد کے لئے فنڈز کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔

3۔ اور قانون نمبر 5272 - جسے جان کرٹس (John Curtis) نے 17 ستمبر 2021ع‍ کو بیان کیا، دوسرے اجزاء کے ساتھ ساتھ، - امریکی وزیر خارجہ کو پابند کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی امریکی اداروں کے تمام اراکین کو ہدایت کرے کہ وہ اس تجویز کی وکالت کریں کہ امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے۔

کانگریس اور "دہشت گرد نامزدگیاں" اور پابندیاں

باوجود اس کے، کہ افغانستان پر طالبان کے تسلط کو ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے، امریکہ طالبان کے خلاف - بالخصوصFTO .کے تعین کے ذریعے - پابندیوں سے متعلق قوانین پیش کر رہا ہے:

• مائیک گالاگھر (Mike Gallagher) نے قانون نمبر 5127 متعارف کرایا جس کے تحت طالبان کے خلاف دو طرفہ یا کثیر الاطراف پابندیوں کی منسوخی کو ممنوع کیا جاتا ہے۔

• سکاٹ پیری (Scott Perry) نے قانون نمبر 5236 کا حوالہ دیا جس کے تحت طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کی پابندی اٹھانے کو ممنوع کیا گیا ہے۔

• سینٹر لنٹسے گراہم (Lindsay Graham) اور مائیکل والٹز (Michael Waltz) نے اعلان کیا کہ وزارت خارجہ کو چاہئے کہ طالبان کو ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کرائے۔

• سینٹر مارکو روبیو نے ایسے قانون کو متعارف کرایا جس کے تحت امریکی وزارت خارجہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (Foreign Terrorist Organization [FTO]) کے طور متعارف کرائے۔ نیز یہ قانون امریکی صدر کو ہدایت کرتا ہے کہ ان غیر ملکی افراد پر خاص قسم کی پابندیاں لگائے جو طالبان کی حمایت کرتے ہیں یا ان کے ساتھ لین دین میں ملوث ہیں۔

• سینٹر ٹام کاٹن (Tom Cotton) نے قانون نمبر 2770 کا حوالہ دیا جو وزیر خارجہ کو پابند بناتا ہے کہ وہ طالبان کو FTO کے طور پر متعارف کرائے۔

• سینٹر جیمز رش (James Risch) نے قانون نمبر 2863 متعارف کرایا جو صدر امریکہ کو حکم دیتا ہے کہ وہ طالبان جماعت کے اراکین اور ان دوسرے افراد پر پابندیاں لگائے جو دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتے ہیں؛ اور ہر اس غیر ملکی فرد پر بھی وہی پابندیاں لگائے جو طالبان کی مادی اور مالی حمایت کرتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ دباؤ انسانی المیے کی قیمت پر

لگتا ہے کہ امریکی کانگریس میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ طالبان کے سلسلے میں نافذ پابندیوں کو برقرار رکھا جائے، طالبان کو افغانستان کے مالی ذخائر سے دور رکھا جائے، اور ساتھ ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی افغاستان ترسیل کی اجازت دی جائے۔ حالانکہ افغانستان طالبان سے پہلے متعدد بحرانوں کا سامنا کر چکا ہے؛ یہاں تک کہ یونیسف کے اندازوں کے مطابق "شدید غذائی قلت کے باعث 10 لاکھ افغان بچے فوری علاج کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار ہیں"۔ لیکن امریکہ نے وہ تمام پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں جو افغانستان میں انسانی المیے کو جنم دیتی ہیں۔

کانگریس کے مقاصد

[افغانستان کے 7 سے 9 ارب ڈالر کے بیرونی ذخائر پر امریکہ نے قبضہ کر رکھا ہے، جو اچھی خاصی رقم ہے اور لالچی استکباری حکمران اس سے چشم پوشی نہیں کرسکتے اور امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹروں کے متعارف کردہ قوانین اور دہشت گردی کے الزامات کے بہانے یہ خطیر رقم امریکی خزانے سے نہیں نکل پائے گی؛ تاہم] مذکورہ موضوعات کا مطالعہ کرکے دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکی تعلقات بہت پیچیدہ اور بحث انگیز ہیں۔ اور امریکی کانگریس اور حکومت نے اس سلسلے میں کئی بلاواسطہ اور بالواسطہ قدم اٹھائے ہیں:

• پہلا قدم: امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے اور ان ممالک کو سزا دی جائے جو طالبان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ نے اس سلسلے میں شدید ترین پابندیاں طالبان پر لگائی ہیں جن کا جاری رہنا انسانی المیے کا باعث بن سکتے ہیں۔

• دوسرا قدم: کانگریس کی مسلسل کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان مخالف تنظیموں کی حمایت کرکے، طالبان کی طاقت کو کمزور کر دے، اور اس رویے سے مختلف جہتوں میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن امریکہ جو افغانستان پر 20 سالہ قبضے کے دوران اپنے جو مقاصد حاصل نہیں کر سکا، انہیں حاصل کرنے پر اصرار کررہا ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کی حکومت قطر میں طویل امریکی-طالبان مذاکرات کے بعد معرض وجود میں آئی ہے اور ان کے درمیان معاہدے بھی موجود ہیں، لیکن امریکہ اپنی استکباری خصلت کی بنا پر اپنے آپ کو ان معاہدوں کا پابند نہیں سمجھتا اور مذکورہ تمام پابندیاں ان معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

جوابی کاروائی

اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ طالبان کے پاس بھی جوابی کاروائی کے لئے حکمت عملی ہے۔ طالبان کو معلوم ہے کہ اگر وہ امریکہ کے رقیب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کریں اور وہ ان کی حکومت کو تسلیم کریں، تو وہ امریکی پابندیوں کا زور توڑ سکتے ہیں؛ اگرچہ امریکہ اس صورت میں اپنا دباؤ مزید بڑھائے گا اور اگر امریکہ اس پالیسی پر کاربند ہو جائے (جس کی توقع بھی کی جاتی ہے) تو افغانستان کا بحران المیے پر منتج ہوگا اور یہ بحران افغانستان، آس پاس کے خطے اور دنیا پر نامعلوم اثرات مرتب کرے گا؛ چنانچہ ااگر امریکہ [بفرض محال] اپنی عالمی بالادستی کو قائم رکھ سکے اور طالبان کو چین، روس اور اسلامی جمہوریہ ایران سے دور رکھ سکے، تو وہ ایسے اقدامات عمل میں لانے کی کوشش کرے گا طالبان جوابی کاروائی کے بارے میں سوچنے کے مرحلے تک نہ پہنچے۔ بصورت دیگر اس کی [رو بہ زوال] عالمی بالادستیا کو مزید دھچکا لے گا۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110